ملک بھر میں سرکاری سٹور ز میں رمضان ریلیف پیکیج کے تحت 1500 سے زائد مصنوعات پر خصوصی رعایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ رمضان ریلیف پیکج پرعمل درآمد 10اپریل سے ہوگیا ہے۔یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ عوام الناس کو روزمرہ استعمال کی 19ضروری اشیا رعایتی نرخوں پر فراہم کی جائیں گی، یہ ریلیف پیکج ملک بھر میں قائم 4,881سٹورزپر دستیاب ہوگا۔ سرکاری سٹورز پررمضان پیکج کے تحت 20 کلو آٹے کا تھیلا 800 روپے ، چینی 68 روپے کلو اور گھی 170 روپے فی کلو کی رعایتی قیمت پر دستیاب ہوگا، چائے کی پتی پر 50 روپے فی کلو،سفید چنے پر فی کلو 15 روپے، دالوں پر 15 سے 30 روپے فی کلو، کھجوریں فی کلو 20 روپے، چاول پر 10 سے 12 روپے، بیسن پر 20 روپے فی کلو اور مصالحہ جات پر 10 فیصد رعایت دی جائے گی عوام کو رمضان المبارک میں اشیائے ضروریہ پر رعایت دینے کےلئے حکومت نے اربوں روپے مختص کئے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں رمضان پیکج عوام کے لئے بلاشبہ ایک بڑا ریلیف ہے تاہم رعایتی اشیاءکی سرکاری سٹورزکو وافر مقدار میں ترسیل اور عوام کےلئے دستیابی وہ سوال ہے جس کا جواب سرکار اور سرکاری سٹور والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ عام شکایت یہ ہے کہ سرکاری سٹورز کے اہلکار دکانداروں سے ملی بھگت کرکے رعایتی مال سٹور پہنچنے سے قبل ہی مارکیٹ میں پہنچا دیتے ہیں یوٹیلٹی سٹور کی مخصوص پیکنگ میں چینی، چاول ، چنے اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مخصوص دکانوں پر دستیابی کے شواہد بھی ملے ہیں۔پشاور کے پوش علاقہ گل بہار میں ایک یوٹیلٹی سٹور سے مقامی دکاندار کو آٹے کے تھیلے رکشے میں ڈال کر لے جانے کی وڈیو بھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔مہنگائی کے مارے عوام کو ماہ صیام میں ریلیف پہنچانے کےلئے حکومت نے سرکاری سٹور پر جو رعایتی اشیاءفراہم کی ہیں انہیں اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنا سنگین جرم ہے۔ اور اس جرم میں سرکاری سٹور کے اہلکار اور وہاں سے سستی اشیاءخرید کر مہنگے داموں اوپن مارکیٹ میں بیچنے والے دکاندار برابر کے شریک ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ رعایتی اشیاءکی خریداری کےلئے سرکاری سٹور پر صبح سویرے سے لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں چالیس پچاس گاہکوں کو نمٹانے کے بعد رعایتی اشیاءکا سٹاک ختم ہوجاتا ہے۔محدود سٹاک جلد ختم ہونے پر بھی سٹور انتظامیہ پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رعایتی اشیاءکی وافر مقدار میں ترسیل کےلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں۔ سستے بازاروں میں بھی سرکاری سٹورز کے سٹال لگائے جائیں تاکہ لوگوں کو رعایتی اشیائے ضروریہ کی خریداری میں آسانی ہو۔ساتھ ہی رعایتی اشیاءکی بلیک مارکیٹنگ روکنے کے لئے نگرانی کے نظام کو فعال بنایا جائے تاکہ سبسڈی کی مد میں حکومت کی طرف سے مختص کی گئی رقم کی پائی پائی عوام پر خرچ ہوسکے۔اگر ہول سیل اور پرچون کا کاروبار کرنے والے بھی رمضان المبارک کے دوران اپنے منافع میں پچاس فیصد کمی کردیں تو ان کے رزق میں برکت ہوگی غریب لوگوں کو ریلیف ملے گا اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوگا۔اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کےلئے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور ہمدردی کا برتاﺅ کرنا بھی ضروری ہے۔ مخلوق خدا راضی ہوگی تو ان کے دلوں سے نکلی ہوئی دعائیں ماہ صیام میں ضرور بارگاہ الٰہی میں قبول ہوں گی۔غیر مسلم ممالک میں رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے لئے تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں افطار دستر خوان ، مفت سحری کے انتظامات، نادار افراد کے گھروں میں راشن پہنچانا، یتیموں، بیواﺅں، معذوروں اور ناداروں کی مدد کرنا مسلمانوں کی زریں روایات رہی ہیں ان سنہری روایات کو زندہ کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید کبھی ماضی میں اتنی ضرورت نہ رہی ہو۔