وفاقی حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ”احساس کوئی بھوکانہ سوئے پروگرام “شروع کیا ہے پروگرام کے ذریعے ان مزدوروں ، دیہاڑی دار اور کم اجرت والے ورکروں میں مفت کھانا تقسیم کیا جائے گا جن کی احساس پناہ گاہوں اور لنگر خانوں تک رسائی نہیں ہے۔فیصل آباد، لاہور اور پشاور میں متعدد ٹرک باورچی خانوں کے ذریعے کھانے کی مفت فراہمی کا آغاز کیاگیا ہے۔ ہر ٹرک کچن سے مخصوص سروس پوائنٹس پر روزانہ 1500سے 2000افراد کو کھانافراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔کھانے کی تیار ی اور فراہمی ٹرک کچن سے ہی ہوگی۔پنڈی اسلام آباد میں پروگرام کے تحت 37827 افراد کواب تک کھانا تقسیم کیا جاچکا ہے۔وزیراعظم نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ کوئی شخص خالی پیٹ نہیں سوئے گا۔ مفت کھانے کی فراہمی سے غریب، مستحق، مزدور اور اجرت پر کام کرنے والوں کو مشکل سے کمائی جانے والی رقم اپنے بچوں اور گھرانوں کے کھانے پر استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔ ٹرک کچن معیاری کھانا پکانے کی اشیاءاور آلات سے لیس ہیں۔ رواں سال کے آخر تک مرحلہ وار اس پروگرام کو مزید شہروں تک وسعت دی جائے گی۔وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین نے اب تک ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ پروگرام پر نکتہ چینی نہیں کی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بھی یہ آئیڈیا پسند آگیا ہے۔ حالانکہ نکتہ چینی کا یہ جواز موجود تھا کہ اسلام آباد ملک کا سب سے متمول شہر ہے ملک کا دارالخلافہ ہونے کےساتھ اسے ڈپلومیٹک سٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں کے باسیوں کی واضح اکثریت ارب پتی اور کروڑ پتی افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کا نچلا طبقہ بھی لکھ پتی ہے۔وہاں بحریہ ٹاﺅں کے دسترخوان سے بھی مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ اگر یہ پروگرام دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں شروع کیاجاتا تو بھوکے سونے والوں کو بھرے پیٹ کےساتھ سونے کا موقع مل جاتا۔ٹرک کچن میں تیار کئے جانے والے کھانے کا مینو کیا ہے اس بارے میں حکومت نے فی الحال کوئی وضاحت نہیں کی۔ رمضان المبارک کے دوران شاید افطار ڈنر کا اہتمام کیا جائے گا۔ہماری حکومت بھی کافی بھولی ہے اسے توقع ہے کہ مفت لنگر سے غریب، نادار، یتیم، بیوہ خواتین ، بے سہارا لوگ، سٹریٹ چلڈرن اور مسافر ہی استفادہ کریں گے۔لیکن حکومت کو شاید یہ علم نہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی تو غریب خواتین کو مالی مدد فراہم کرنےکا پروگرام ہے اس پروگرام سے 60فیصد متمول لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ کروڑ پتی، گاڑیوں، بنگلوں اور بڑی جائیدادوں کے مالک، سرکاری ملازمین اور بیرون ملک پرکشش ملازمت کرنےوالوں کی بیگمات بھی شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں کا محدود پیمانے پر سروے کیا گیا تو ہوشرباءانکشافات ہوئے۔ گریڈ سترہ سے بائیس تک کے افسران کے اہل خانہ بھی مالی امداد کے مستحقین میں شامل نکلے۔ ہمارے ہاں غریب کے مال کو عوامی خوردہ سمجھ کر سارے لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ غرباء، مساکین ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کا مال مرغوب ہونے کی وجہ سے ہمیں خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ والا مال بھی بااثر لوگ نہ چٹ کر جائیں۔یہ صرف ہمارا خدشہ ہے اور اس کا اظہار کرنا ہم اپنا آئینی، قانونی، اخلاقی اور قومی حق سمجھتے ہیں ممکن ہے کہ ہمارے خدشات بے بنیاد ہوں۔اور خدا کرے کہ یہ سارے خدشات صرف خدشات ہی رہیں۔