پابندی اور خاتمہ۔۔۔۔۔

جس طرح ماضی میں ہوتارہا ہے اسی طرح ایک بارپھر پنجاب کی طرف سے خیبرپختونخو ا پر رزق کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی گئی رمضان المبارک قریب آتے ہی پنجاب نے ایک بار پھر غیر اعلانیہ طور پر خیبر پختونخوا کے لئے گندم کی ترسیل پر پابندی عائد کردی اٹک اور پنجاب کے مختلف داخلی وخارجی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کردی گئیں جہاں پرسندھ اور پنجاب سے خیبر پختونخوا آنے والے پرائیویٹ گندم سے لدے ٹرک واپس کئے جانے لگے بعض چیک پوسٹوں پر بھتہ کی وصولی کی بھی اطلاعات ملیں تاجروں نے اس امر کاخدشہ ظاہر کیاتھاکہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو خیبر پختونخوا میں آٹے کا بد ترین بحران پیدا ہوجائے گا اور رمضان المبارک کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے عوام آٹے کے حصول کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔واضح رہے کہ بڑے صوبے پنجاب کا رویہ گندم اور آٹے کے حصول کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ہمیشہ نامناسب رہا ہے سابقہ اداروں میں بھی متعدد بار پنجاب نے خیبر پختونخوا کو آٹے اور گندم کی ترسیل پر پابندی عائد کی تھی تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایک ہی سیاسی جماعت یعنی پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام نے تاریخ میں دوسری مرتبہ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع دیا ہے اس صوبہ کے عوام نے پی ٹی آئی کو دوبارہ بھاری مینڈیٹ سے نوازا اور ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ تاہم اس صوبہ کے ساتھ پنجاب کا رویہ آج بھی نامناسب ہے اور حسب روایت پنجاب نے ایک بار پھر رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ خیبرپختونخوا کو آٹے کی ترسیل پر پابندی لگادی تھی 18 ترمیم کے تحت صوبہ پنجاب کو گندم اور آٹے پر مکمل اختیار ہے اور اس اختیار کو پنجاب حکومت استعمال کررہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی پن بجلی کی پیداوارتمام صوبوں سے زیادہ ہے لیکن پن بجلی پر اس کا اختیار قبول نہیںکیا جاتا انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ بجلی پر خیبر پختونخوا کا اختیار تسلیم کیا جائے اور اس کی ضروریات پور ی کرنے کے بعد فالتو پن بجلی دوسری صوبوں کو دی جائے مگر بجلی کے معاملہ میں ایسا نہیں کیاجارہاجبکہ گندم اور آٹے کے حوالہ سے خیبر پختونخوا کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جاتارہا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے صورت حال جب بگڑنے لگی تو منگل کو محکمہ خوراک کی طر ف سے بھی صوبائی حکومت کو گذشتہ روزمعاملہ کی ممکنہ سنگینی سے آگاہ کردیاگیا اورواضح کیاگیا کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو خیبر پختونخوا میں آٹے کا بد ترین بحران پیدا ہوجائے گا اور رمضان المبارک کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے عوام آٹے کے حصول کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے جس کے فورا بعد اعلیٰ ترین سطح پر یہ معاملہ پنجاب اور مرکزکے ساتھ اٹھایا گیا اس سلسلہ میں چیف سیکرٹری کاظم نیاز فوری حرکت میں آگئے اور پنجاب کے چیف سیکرٹر ی کو آگاہ کیاگیا جبکہ ساتھ ہی ویڈیو لنک کانفرنس کے ذریعہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں بھی لایاگیا کاظم نیاز چونکہ اسی دھرتی کے فرزند ہیں اس لئے وہ اس کاحق اداکرنا بھی جانتے ہیں اسی لیے انہوں نے اس معاملہ میں وقت ضائع کیے بغیراعلیٰ سطحی رابطے مکمل کرلیے دوسری طرف وزیر اعلیٰ محمود خان نے ملاقات میں بھی وزیر اعظم کو صور تحال سے آگاہ کیا جس پروزیر اعظم نے فوری نوٹس لیتے ہوئے پابندی ہٹانے کی ہدایت کردی تھی جس کے بعد کئی دنوں سے غیر اعلانیہ طورپر عائد پابندی ہٹا لی گئی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ آخر اس قسم کی غیر منصفانہ اور نامناسب پابندیا ں عائد کیوں کی جاتی ہیں اس سلسلہ میں صوبہ پنجاب کو اب حقیقی معنوں میں بڑے بھائی کاکردار اداکرناہوگا خیبرپختونخوا آج تک اپنی بجلی کے بقایا جات کارونا رورہاہے قاضی فارمولہ کے تحت ادائیگی تو ایک طرف اب تو معمول کے بجلی منافع کی رقم کے حصول کے لیے بھی اس سے ہرماہ خصوصی محاذ گرم کرناہوتاہے یوں اس کی اپنی بجلی ہی اس کے کنٹرول میں نہیں مگر بات جب گندم کی آتی ہے تو وہ ایک صوبہ کی پیداوار قراردے کر اس صوبہ کو ہر قسم کے فیصلوں کااختیار بھی دے دیاجاتاہے اب وقت آگیاہے کہ یہ مسئلہ بھی مستقبل بنیادوں پرحل کرلیا جائے یہ تو بھلا ہو وزیر اعلیٰ اورچیف سیکرٹری کا کہ جب معاملہ ان کے علم میں آیا تو چند گھنٹو ں میں پابندی ختم کرادی گئی تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ محکمہ خوراک اتنے دن کیا کرتارہایہ پابندی کئی روز سے جاری تھی مگر کوئی بھی سرکاری افسر ٹس سے مس نہیں ہوا اور بعد از خرابی بسیار معاملہ چیف سیکرٹری کے نوٹس میں لایا اگر پہلے دن ہی یہ اقدام کرلیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا چیف سیکرٹری کو اپنے سیکرٹری خوراک اورساتھ ہی سیکرٹری داخلہ سے بھی وضاحت طلب کرنی چاہئے کیونکہ اشیائے ضروریہ کی بلا رکاوٹ ترسیل کی ذمہ دار ی انہی کو دی گئی ہے پابندی لگی اورپھر ہٹ بھی گئی ہے تاہم یہ عمل اپنے پیچھے ان گنت سوالات چھوڑ گیاہے جس کے جوابات جلد سے جلد سامنے آنے ضروری ہیں ۔