گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد کو نہ جانے کس کی نظر یا زبان کا زہر لگ گیا۔ حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی اپوزیشن اتحاد باہمی اختلافات کا شکار ہوکر تتر بتر ہوگئی۔ بداعتمادی کا آغاز سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست کے حصول کی جدوجہد سے ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کی گھاگ قیادت نے باپ کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے یوسف رضاگیلانی کا ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف بنا دیا اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئیں۔ اے این پی نے بھی اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ مگر رہی سہی اپوزیشن والے باپ کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ پہلے ایک زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ کافی مقبول ہوا تھا۔ مگر آج کل ”باپ ہی سب کا باپ ہے“ کا نعرہ بازی لے گیا ہے۔حکومت نے اپوزیشن اتحاد کی مخالفانہ تحریک کو باپ بچاؤ مہم کا نام دیا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں کافی کنفیوژن پایا جاتا ہے کہ آخر یہ باپ کون ہے جس کو بچانے کی باتیں زبان زد عام ہیں اور اسی باپ نے اپوزیشن میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔باپ بچاؤ مہم میں بقول حکومتی پارٹی باپ سے مراد آصف زرداری اور نواز شریف ہیں جن کو بچانے کیلئے اول الذکر کا بیٹا بلاول اور آخر الذکر کی بیٹی مریم جدوجہد کر رہی ہیں لیکن یہاں باپ سے مراد کسی کا باپ ہرگز نہیں بلکہ یہ بلوچستان عوامی پارٹی کا مختصر نام ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کو یہ اطمینان ضرور تھا کہ پیپلز پارٹی نے ان کا خط پھاڑ کر بے وفائی کا ثبوت دیا ہے تو کیا ہوا۔ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن اتحاد میں شامل ہے اور اسمبلیوں سے استعفے دینے کی ان کی خواہش کے احترام کا وعدہ کرچکی ہے۔ پھر اچانک یوں ہوا کہ مسلم لیگ ن نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ یہ کہہ کر موخر کر دیاکہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر پیپلز پارٹی کو کیوں فائدہ پہنچائے گی۔ پی پی پی والے پہلے استعفے دیں پھر دیگر اپوزیشن جماعتیں استعفوں پر ہمدردانہ غور کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ سیاست عزت اور برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے،استعفیٰ دیناآخری ہتھیار ہونا چاہیے تھا، جس کو استعفٰی دینا ہے بڑے شوق سے دیدے لیکن کسی پارٹی کو ڈکٹیٹ نہ کریں۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے شکوہ کیا ہے کہ جو جماعت اپنی زبان سے پھر جائے وہ اپوزیشن اتحاد کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ میرا خط پھاڑ کر پھینکا گیا تو میراجواب بھی یہی ہے خدا حافظ۔سیاست کی شدبد رکھنے والے لوگ حیران ہیں کہ اپوزیشن والے موجودہ اسمبلیوں کو غیر قانونی سمجھتے تھے۔ پھر انہی غیر قانونی اسمبلیوں کا حصہ بننے کے لئے دست و گریبان ہونے کا کیا مطلب ہے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر کی معمولی نشست کے حصول کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تمام وعدے اور قسمیں توڑ دیں اگر چیئرمین سینٹ، ڈپٹی چیئرمین، سپیکر اور وزیراعظم کے عہدے کے لئے رسہ ہوجاتی تو یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتے۔ پی ڈی ایم کے قائد اپوزیشن اتحاد کو بچانے کے حوالے سے اب تک پرامید ہیں تاہم مسلم لیگ کی قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں راستے جدا ہونے کا کہہ دیا ہے۔ مختلف الخیال افراد کو ایک پلیٹ فارم پر رکھنے کا مولانا صاحب کے ساتھ ساتھ آصف زرداری کو بھی ملکہ حاصل ہے۔ اپوزیشن اتحاد کی سربراہی انہیں سونپ دی جاتی تو شاید حکومت کے مخالفین کو آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں وہ اپوزیشن کو بھی اب تک حکومت کا حصہ بناچکے ہوتے۔