معالجین کا اپنے ملازمتی ڈھانچے کے لئے فکرمند ہونا اور کام کاج (علاج معالجہ) چھوڑ کر ہڑتال کی دھمکی (متنبہ) کرنا‘ اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کورونا وبائی حالات میں ڈاکٹروں کی خدمات کا اعتراف کرتی ہیں اور اُنہیں کورونا وبا کے خلاف کام کرنے والے ہراول دستے میں صف اوّل (فرنٹ لائن ورکر) کا کارکن (شانہ بشانہ رفیق) سمجھنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ معالجین تمام تر خطرات مول لینے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھنے کے باوجود بھی ’مطمئن‘ نہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے ’ہڑتال کی دھمکی‘ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی لیکن اِس قسم کے اعلانات سامنے آنے کے بعد فیصلہ سازوں کے کان پر جوں اُس وقت تک نہیں رینگتی جب تک ڈاکٹر ہڑتال کر نہیں دیتے اور جب تک علاج معالجے کا نظام متاثر نہیں ہوتا۔ ماضی میں اِس قسم کی ہڑتال کئی دنوں نہیں بلکہ کئی ہفتوں تک جاری رہنے کی وجہ سے مریضوں اور اُن کے تیماردار شدید مشکلات سے دوچار رہے ہیں جبکہ موجودہ وبائی صورتحال اِس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ ڈاکٹر ایک منٹ کی بھی ہڑتال کریں ڈاکٹروں کی جانب سے ہڑتال کرنے پر اتفاق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اُن ’خاص معالجین‘ کی طرف سے ہے جو کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں اور فیصلہ سازوں کو اِن کی ہڑتال سے پیدا ہونے والے ممکنہ شدید عوامی اور ذرائع ابلاغ کے دباؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے خاطرخواہ اقدامات (مذاکرات) کرنے چاہیئں کورونا وبا کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ طب کے شعبے سے وابستہ سبھی معالجین اور اِن کے معاونین اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک ایسے دشمن کے خلاف محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں جو دکھائی بھی نہیں دیتا۔ ڈاکٹروں کا ایثار‘ جذبہ اور جانی قربانیاں شمار کے باوجود بھی ناقابل شمار ہیں۔ پروانشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعدادوشمار (9 اپریل 2021ء) کے مطابق ”خیبرپختونخوا میں فرائض کی انجام دہی کے دوران کورونا سے متاثر ہوکر 57 ڈاکٹرز اپنی زندگیوں کی بازی ہار چکے ہیں!“ فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ جزوقتی ڈاکٹروں کے ساتھ ہوئے ملازمتی معاہدے (کنٹریکٹ) میں ہر سال توسیع کی جاتی ہے لیکن ڈاکٹر اِس ملازمتی حیثیت سے مطمئن نہیں اور دیگر کل وقتی ملازم ڈاکٹروں کے مساوی مراعات اِنہیں بھی ملنی چاہیئں اور اِن ڈاکٹروں کا جائز مطالبہ یہ بھی ہے کہ شہید ہونے والے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی خدمات کا اعتراف کیا جائے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فرائض کی انجام دہی میں اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرنے والوں کے لواحقین کو 70 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے معاوضہ دیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ شہید ہونے والے 57 ڈاکٹروں اور 91 معاون طبی عملے کے اراکین کی فہرست میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف کورونا وبا سے متعلق اِحتیاطی تدابیر (اِیس اُو پیز) پر عمل درآمد کی صورتحال بھی زیادہ قابل بیان نہیں اور جیسے جیسے کورونا ٹیسٹنگ میں اِضافہ کیا جاتا ہے متاثرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ پندرہ اپریل تک خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے 2 ہزار 761 اموات‘ ایک لاکھ دو ہزار سے زیادہ متاثرین اور 86 ہزار 531 مریض علاج کے بعد صحت مند ہو چکے ہیں۔ معالجین عمومی ہوں یا خصوصی‘ عملہ طبی ہو یا معاون صوبائی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ ہنگامی حالات اور ضرورت کا اِحساس و ادراک کریں۔