ماہ صیام کی برکتیں اور ہمارا طرز عمل

رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ فرزندان توحید ماہ صیام میں عبادت، بندگی، ذکر و اذکار، کلام مجید کی تلاوت، خیرات، زکواۃ، صدقات بانٹنے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ رہتی دنیا تک انسانیت کو نیکی، فلاح اور نجات کا راستہ دکھانے والے قرآن مجیدکا نزول بھی رمضان المبارک میں ہوا تھا۔ اسی قرآن میں رمضان کی اہمیت کاذکر موجود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”بے شک تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو“ماہ صیام میں مسلسل تیس دن تک تہجد پڑھنے، سحری کرنے، فجرکی نماز باجماعت پڑھنے، دیگر اوقات کی نمازوں میں باقاعدگی رکھنے، خیرات و صدقات دینے اور لوگوں کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کا برتاؤ کرنے کی انسان کو توفیق عطا ہوتی ہے۔ تاکہ ان عادات کو ہم مستقل طور پر اپنا لیں اور اپنی زندگی کا حصہ بنالیں۔ مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ رمضان المبارک میں اپنائی گئی عادتیں عید کا چاند دیکھتے ہی ہمیں بھول جاتی ہیں۔حالانکہ رمضان کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم پرہیز گار بنیں۔ ہماری نماز، ہمارے روزوں، عمرے، حج، صدقات، زکواۃ، خیرات اور قربانی کااللہ تعالیٰ کی ذات کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ خود خالق کائنات فرماتے ہیں کہ تمہاری قربانی کا خون، گوشت اور پوست اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا صرف تمہارا تقویٰ اللہ تعالیٰ کوپہنچتا ہے۔ گویا نماز، روزے، قربانی، زکواۃ اور دیگر عبادات کا بنیادی مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری کی عادت اختیار کرنا اوراسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ اگر یہ تمام عبادتیں ادا کرنے کے باوجود ہم نے خوف خدا پیدا نہیں ہوتا۔ ہم پرہیز گار نہیں بنتے، ہماری زبان، ہاتھ اور اعمال سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے ہم جھوٹ بولتے ہیں کسی کا مال کھاتے ہیں، کسی کا حق مارتے ہیں۔تو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے نماز اور روزے کا حق ادا نہیں کیا‘بازار میں جائیں تو ہرچیز کی قیمت میں دو سے پانچ گنا تک اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ رمضان کے مہینے کو اپنی سال بھر کی کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ماہ صیام میں نیکیاں کمانے کے بجائے لوگوں کی بددعائیں اور گناہ کماتے ہیں۔ کسی دکاندار سے پھل یا سبزی خریدیں تو آپ کو صاف اور اچھی چیز دکھائے گا اور آپ کے تھیلے میں خراب اور سڑی ہوئی چیزیں ڈال دے گا۔ لوگ اسے بددیانتی نہیں بلکہ کاروباری ٹریک سمجھتے ہیں اور اسی چالاکی میں ثواب کے بجائے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔اس سے بڑی بدقسمتی کیاہوگی کہ رمضان کے مقدس مہینے میں رحمتوں کی برسات سے خود کو بچا کر ہم معمولی مادی مفاد کی خاطر اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی ناراضگی مول لیتے ہیں‘ خدا ترسی اور خلق خدا سے محبت کو چھوڑ کر مادہ پرستی، نفس پرستی، دھوکہ دہی اورجعل سازی کی راہ پر چلنے کا شاخسانہ ہے کہ ہم پر سیلاب، زلزلوں، طوفان، بے وقت بارشوں یا خشک سالی اور متعدی امراض کی شکل میں عذاب نازل ہوتے ہیں۔ یہ سب ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے اور خود کو عذاب سے بچانے کا رمضان المبارک ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم صدق دل سے رب کائنات سے اپنے معاصی کی معافی مانگیں اور اللہ تعالیٰ اور آپ کے محبوب کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر تقویٰ کی منزل تک رسائی کی کوشش کریں جو ہماری دنیاوی اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔