اگرہربار بات باہمی الزام تراشی سے شروع کی جائے گی تو تلخیا ں کسی بھی طورکم نہیں ہوسکیں گی افغانستان برصغیراور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں یقینا حساسیت کاشکار ہے کیونکہ پہلے اس کے پڑوس میں اگر غیر منقسم ہندوستان واقع تھا تو پھر 1947میں ہندوستان کی سرحد اس سے کئی سو کلومیٹردورہوگئی اور اس کے پڑوس میں پاکستان کے نام سے ایک نئی مسلمان ریاست ابھر آئی جویقینی طورپر ہندوستان کے مسلم ورثے کی امین تھی ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ باہمی حد بندی کامعاہدہ انگریز دو ر میں ہی طے پایا تھا جس کوپھرہر افغان حکمران نے تسلیم بھی کیااور جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو یہ سرحدی لکیرڈیورنڈ لائن کی بجائے پاک افغان سرحد کہلانے لگی مگر کیا کیجیے کہ دونوں جانب ہی ایسے انتہا پسند عناصر ہردورمیں موجودرہے جو اس طے شدہ سرحدی معاملہ کو ہمیشہ متنازعہ بنانے کے خواہشمند رہے یہ وہ لوگ تھے اورآج بھی ہیں جن کا مفاد اسی میں ہے کہ دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے درمیان بد اعتماد کی فضا ء قائم رہے وگرنہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں تو یہ ایک ایساموقع تھاکہ پاکستان اور افغانستان مل کر اس پورے خطے کو ایک بہت بڑی تجارتی طاقت میں تبدیل کرسکتے تھے وسط ایشائی ریاستیں اورافغانستان عالمی برادری سے تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں استعمال کرکے پورے خطے میں خوشحالی کانیا انقلاب بپا کرسکتی تھیں مگر اس کیلئے ضروری تھاکہ افغانستان میں امن ہو اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات بداعتماد ی سے پاک ہوں مگر اس مرحلہ پر بھی انتہاپسند عناصر کامیاب رہے ایک طرف افغانستان میں تباہی وبربادی کاکھیل جاری رہا دوسری طرف سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تاریخ کی سردترین سطح پر آگئے تھے اگر الزامات کاجائزہ لیا جائے تو افغانستان کو گلہ ہے کہ پاکستان نے روسی یلغار کے بعد سے اپنی سرزمین غیرملکی طاقتوں کے ذریعہ افغانستان کے خلاف استعمال کی اوراسی بنیاد پر دونوں ممالک کے انتہاپسند عناصرپاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کچھ اسی نوع کی شکایات پاکستان کو 1947سے چلی آرہی ہیں جب پاکستانی باغیوں کیلئے افغان سرزمین جائے پناہ بنی رہی تھی اسی لیے تو کہتے ہیں کہ باہمی الزام تراشی کو چھوڑ کر اب دونوں ممالک کو تعلقات کے ایک نئے دور کاآغاز کرناہوگا پاکستان اور افغانستان صدیوں سے مذہبی، ثقافتی، تہذیبی اور عوامی رشتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں دونوں کی تاریخ بھی جڑ ی ہوئی ہے افغانستان اور پاکستان میں بڑی تعداد میں ایک ہی زبان بولنے والوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے مگر بدقسمتی سے یہ لوگ خوشحالی سے ہر دو ر میں محروم ہی رہے کیونکہ بڑی طاقتوں نے ہمیشہ ا فغانستان کو جنگ وجدل کامرکز بنائے رکھا چاہے وہ برطانیہ ہو یا پھرروس و امریکہ،اب جبکہ دنیاتیزی سے بدل رہی ہے افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک بھی مل کر آگے بڑھنے کاعزم کریں افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری مذاکراتی عمل کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کو کسی بھی طور نظرانداز نہیں کیاجاسکتا دنیا کے جس حصہ میں بھی افغان امن عمل کے سلسلہ میں بات چیت ہوئی پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا کیونکہ پاکستان کی روز اول سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان امن وخوشحالی کاگہوارہ بنے تاکہ یہ خطہ ترقی کی منازل طے کرسکے دونوں ممالک کے سنجید ہ فکر حلقوں کو بھی اپنی اپنی حکومتوں پر مسلسل دباؤ ڈالے رکھناچاہئے تاکہ قیام امن اور باہمی بداعتمادی کی فضا کے خاتمہ کیلئے دونوں حکومتیں مزید فعال انداز میں اپنا اپناکردارادا کرنے پر مجبورہوسکیں سیاست کے سینے میں یقینا دل نہیں ہوتا اسی لیے تو پھر بہت سے اہم امور نظر اندازہوجاتے ہیں جس کے بعد حالات کاخمیازہ عام لوگ بھگتنے پر مجبور ہو تے ہیں استنبول میں جاری مذاکراتی عمل کی کامیابی سے اب مستقبل کی خوشحالی کی امید جڑ ی ہوئی ہیں افغان حکومت کو اس معاملہ میں زیادہ لچک کامظاہر ہ کرناہوگا پاکستان پہلے ہی پور ی طرح سے سرگرم ہے افغانستان اورپاکستان ایک دوسرے کاساتھ دیں تو تجارتی حجم میں ریکارڈ اضافہ کرکے اپنے اپنے لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کی کامیاب کوشش کی جاسکتی ہے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ کے تحت افغانستان کی تجارت کراچی کی بندرگاہ، طورخم اور چمن کے راستے ہوتی رہی ہے اور پاکستان نے کبھی بھی اس تجارت میں رکاوٹ نہیں ڈالی، اس نے مالی مشکلات کے باوجود افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کئے ہر مشکل وقت میں پاکستان نے افغانستان کی عملی مدد کی ہے، افغان امن عمل میں بھی پاکستان کا تاریخی کردار رہا ہے اور جیسا کہ بتایا گیاکہ یہ کردار ا ب بھی برقرارہے کیا ہی بہتر ہوکہ دونوں ممالک کی سول سوسائٹی بھی آگے بڑھ کر تعلقات بہتر ی کیلئے کوشش کرے کیونکہ انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والوں کوناکام بنانا صرف حکومتوں کاکام ہی نہیں اس میں میڈیا اورسول سوسائٹی کو بھی متحرک ہونا پڑے گا افغانستان ہمار ا پڑوسی ہی نہیں بلکہ برادر اسلامی ملک بھی ہے پاکستان کی خواہش ہوکہ طویل خانہ جنگیوں کاسلسلہ ختم ہو تاکہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورا خطہ امن و خوشحالی کاگہوارہ بن سکے کیونکہ علامہ اقبال ہی نے تو افغانستان کو ایشیاء کادل قراردیتے ہوئے کہاتھاکہ اگر افغانستان خوشحال ہوگا پرامن ہوگا تو پورا خطہ امن و خوشحالی کامرکز بن سکے گا حکومتوں اوراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اب عام پاکستانی اورافغانی کو بھی ان سازشی عناصر کوناکام بنانے کیلئے آگے آناہوگا جو ہر دور میں باہمی بداعتمادی کے بیج بو کر مفاد ات سمیٹتے رہے ہیں۔