پشاور کہانی: محروم ِتفکر۔۔۔۔

”تفکر“ اظہار کا ذریعہ بھی ہوتا ہے کہ اِس کی موجودگی کسی عنوان (موضوع) سے تعلق کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے جس پر قدم رکھنے سے محبت (سلوک) کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور یوں ایک جذباتی تحریک (شوق و جذبے) کی رہنمائی میں ترجیحات کے یکے بعد دیگرے سنگ میل عبور ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر کسی موضوع (گردوپیش) کے بارے سوچ و بچار ہی نہ ہو تو اُس کی اہمیت ثانوی معلوم ہوتی ہے اگرچہ وہ ثانوی نہیں ہوتی‘ جیسا کہ ایک عرصے سے پشاور محروم توجہ ہی نہیں لیکن ’محروم ِتفکر‘ ہے! ’پشاور کہانی: سراسر فریب (اشاعت سولہ اپریل دوہزاراکیس)‘ کے عنوان سے اُٹھائے گئے چند نکات (سوالات) کا تعلق اُس طرزحکمرانی سے متعلق رہا جو صوبائی‘ ضلعی اور بلدیاتی سطح پر رائج اور اصلاح طلب ہے کیونکہ اِس کے ذریعے درپیش مسائل میں سے کسی ایک بھی ایسے مسئلے کا حل ممکن تک نہیں ہو سکا‘ جس کی موجودگی کا اعتراف خود صوبائی کابینہ کے اراکین بھی کرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ ’احیائے پشاور‘ نامی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی جس کے تحت ایک ہدف یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت کے محکموں کو ایک دوسرے سے قریب اور صرف تبادلہئ خیال ہی نہیں بلکہ منصوبہ سازی کے عمل کو مربوط کر دیا جائے‘ ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے ایک دوسرے کی رائے  معلوم کی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو یعنی اِس طرح ہونے والی بچت اور ظہور پذیر ہونے والی ترقی پر عملاً ’پائیداری کا عنصر غالب‘ ہو سکے لیکن زبانی کلامی باتوں دعوؤں‘ باتوں‘ اعلانات اور سوشل میڈیا کا پیٹ بھرنے کیلئے نمائشی کارگزاری سے زیادہ جو کچھ بھی حاصل ہوا وہ کافی (باعث اطمینان) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومتی اداروں کی اِس کارکردگی پر تعجب کا اظہار بذات خود تعجب کا مؤجب ہے کیونکہ جب عوام کے منتخب نمائندے ہونے کا اعزاز رکھنے والوں کا تعلق عوام سے نہ رہے اور عوام کی ضرورت صرف عام انتخابات کے موقع پر محسوس کی جائے تو ایسی صورتحال میں منتخب نمائندوں کو اعلیٰ و ادنیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افسرشاہی (بیوروکریسی) ’سبز باغ‘ دکھا کر گمراہ رکھتی ہے!ماضی میں بھی ’احیائے پشاور‘ کی طرح ’پشاور سنوارو تحریک‘ صوبائی حکومت ہی نے شروع کی جس کیلئے مختلف شعبہ ہائے زندگی اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ’غور و خوض اور سوچ بچار‘ کرنے والے دانشوروں کو ایک چھت تلے اور ایک میز پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ وہ پشاور کے بارے میں سوچیں اور حل تجویز کریں۔ اِس سلسلے میں ہوئے تبادلہئ خیال کے دوران بہت ساری باتیں ہوئیں اور پھر بہت ساری باتوں میں ہونے والی باتیں باتوں میں گم ہو گئیں! جن امور پر ’اتفاق رائے‘ ہوا اُنہیں رقم کر کے دفتروں (فائلوں) میں بند کر دیا گیا اور اُن پر گرد جمتی رہی حالانکہ کوشش قابل قدر تھی کہ پشاور میں شہری زندگی کا حسن بحال کرنے سے لیکر بنیادی سہولیات کی فراہمی تک نت نئے (اچھوتے) خیالات سامنے آئے جن میں سنجیدگی اور گہرائی اپنی جگہ موجود تھی لیکن اُنہیں عملی جامہ پہنانے میں سیاسی و انتخابی مفادات و ترجیحات آڑے آئیں یوں خاطرخواہ دلچسپی سے محروم فیصلہ سازی ”جہاں اور جیسا ہے“ سے آگے نہ بڑھ سکی۔آسیب زدہ پشاور کی موجودہ حالت ِزار سمجھنے کیلئے فلسفے اور نفسیاتی علوم سے بھی ’رویوں کا خوردبینی جائزہ‘ لینا ہوگا۔ ہر دور حکومت میں المیہ رہا ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں بات گھوم پھر کر پشاور کے 3 بنیادی مسائل (پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب کے نظام کی توسیع و اصلاح اور صفائی (کوڑا کرکٹ) اکٹھا کرنے سے تلفی تک کے مراحل) تک پہنچتی ہے تو مالی وسائل کی قلت و دقت پیش آ جاتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ صرف فیصلہ سازوں ہی کا نہیں بلکہ یہاں کے آبائی مقامی و غیرمقامی رہائشیوں کا ’دلی تعلق (رشتہ)‘ بھی پشاور سے ہر دن کمزور ہو رہا ہے۔’شہر ِجاں پناہ‘ کی خوبیوں پر حاوی ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بارہا تجویز دی گئی کہ پشاور کی 92 یونین کونسلوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے اُسے بطور نمونہ (ماڈل) ترقی دی جائے اور اِس عمل سے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں باقی ماندہ یونین کونسلوں میں یکے بعد دیگرے تبدیلی کا آغاز (روڈ میپ) ’بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ سے کیا جائے۔ سازگار ماحول اور محرکات موجود ہیں جن میں 3 مددگار یا معاون وسیلوں کی ماہرانہ و علمی خدمات اور مالی تعاون سے استفادہ کیا جاسکتا ہے‘ جنہیں پکارا جائے تو وہ پشاور یا صوبے کے کسی بھی ضلع میں ترقی کے عمل میں شریک ہونے کے لئے لبیک کہتے ہوئے رجوع کریں گے۔ اِن مددگاروں میں پہلا طبقہ سرکاری و نجی جامعات کا ہے جہاں اساتذہ اور طلبہ کی خاص تعداد شہری ترقی‘ توانائی کے متبادل ذرائع‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور بچت‘ تعمیرات میں استعمال ہونے والی روایتی اشیا کے متبادل اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے سے لیکر صفائی کی عمومی صورتحال میں بہتری اور نکاسیئ آب کے نظام کو ازسرنو مرتب کرنے سے متعلق سائنسی و تحقیقی پہلوؤں سے آشنا ہوتے ہیں لیکن ایسے ماہرین اور خدمت کے جذبے سے سرشار طلبہ کی خدمات اور جذبے (جنون) سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔ رضاکاروں کے بعد مددگاروں کا دوسرا طبقہ نجی کاروباری اور صنعتی اداروں کا ہوتا ہے جو ’سماجی ذمہ داری (Social Responsibility)‘ کے طور پر ’کارِخیر‘ کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے توجہ‘ اپنائیت و اہمیت نہ ملنے کی وجہ سے ایسے افراد اور ادارے خواہش کے باوجود بھی سماجی بہتری کیلئے نہ تو کردار ادا کرسکتے ہیں اور نہ ہی مالی و تکنیکی مدد فراہم کر پاتے ہیں۔ مددگاروں کا تیسرا طبقہ غیرسرکاری تنظیموں (اِین جی اوز) کا ہے‘ جن کی صف میں غیرملکی اِمداد سے منصوبہ جات (پروگرامز) کرنے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں لیکن اُنہیں پابندیوں‘ سرخ فیتے (سرکاری اداروں سے کام کاج میں مشکلات) اور فیصلہ سازوں کی سردمہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں مخیر حضرات امریکہ اور یورپ میں صدر دفاتر رکھنے والی عالمی تنظیموں کے رکن ہیں اور اُن کے ناموں (تشہیر) سے پشاور میں طبی سہولیات کی فراہمی (میڈیکل کیمپس)‘ غربا کی مالی امداد‘ اَشیائے خوردونوش کی تقسیم‘ تعلیمی وظائف‘ قرض حسنہ‘ چھوٹے کاروبار شروع کرنے کیلئے تکنیکی و مالی مدد‘ ہنرمندی اور نشہ آور اَدویات سے نجات و بحالی کے مراکز وغیرہ قائم کئے یہ کام بطور سماجی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں لیکن نہ تو ایسی تنظیموں‘ اداروں کے کردار کو سراہا جاتا ہے اور نہ ہی مالی و انتظامی امور سے لیکر سماج کی ضروریات اور کم مالی وسائل سے زیادہ مدد کرنے جیسی سمجھ بوجھ سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔