کورونا کیساتھ جینے کی حکمت عملی۔۔۔۔

پشاور میں مہلک وباء کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 25فیصد سے اوپر چلی گئی ہے، مردان، سوات اور دیر میں بھی یہ شرح 30فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے نویں جماعت سے بارھویں تک تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہر کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگائے جارہے ہیں۔ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ اڈے دو دن کے لئے مکمل طور پر بند کئے گئے ہیں۔ شادی ہالزبند اور ہوٹلوں میں بیٹھ کر کھانا کھانے کی ممانعت ہے تین سو سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی لگادی گئی ہے۔ کورونا کی تیسری لہر کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہورہے ہیں۔ جس میں ملک بھر سے اموات، نئے اور فعال کیسوں کے اعداد وشمار جاری کئے جاتے ہیں تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ بھی بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں کیا جاتا ہے جس میں این سی او سی کی گائیڈ لائن کو مد نظر رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں۔دفتروں میں بیٹھ کر صورتحال کا جائزہ لینے اور شہروں کے برسرزمین حقائق میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا۔ اور مہلک وباء قابو میں آنے کے بجائے مزید پھیلتا جارہا ہے۔ ٹرانسپورٹ اڈوں کو ہفتے میں دو دنوں کے لئے بند رکھنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ دو دن ٹرانسپورٹ بند ہونے سے شہریوں کو اپنے کاروبار، ملازمت، تعلیم اور علاج کے علاوہ دیگر امور کی انجام دہی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب پانچ دن ٹرانسپورٹ اڈے کھل جاتے ہیں تو اڈوں پر پہلے سے زیادہ رش ہوتا ہے۔بہتر ہوگا کہ ٹرانسپورٹ بند کرکے شہریوں کو عذاب میں ڈالنے کے بجائے ہفتے بھر ٹرانسپورٹ ایس او پیز کے ساتھ چلانے کی اجازت دی جائے۔گاڑیوں میں سینی ٹائیزر اور ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلوں کے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ گاڑیوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہفتے میں دو دن بازاروں کی بندش کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ پانچ دن بازار کھولنے سے لوگوں کا جم غفیر بازاروں میں نکل آتا ہے۔ ایسی صورت حال میں سماجی فاصلوں پر عمل درآمد کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ احتیاطی تدابیر پر کورونا کی پہلی لہر کے دوران تعلیمی اداروں، سرکاری و پرائیویٹ دفاتر اور عوامی مقامات پر بھی کچھ نہ کچھ عمل درآمد ہوتا نظر آرہا تھا۔ کورونا کی دوسری اور تیسری لہر کے دوران ان احتیاطی تدابیر کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا پرائیویٹ سکولوں کے مالکان حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔ یہ دباؤ اگر بچوں اور والدین کی طرف سے آتا تو بات سمجھ میں آنے والی تھی۔ کیونکہ گذشتہ تیرہ مہینوں سے تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی متاثر ہورہی ہے آن لائن کلاسوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ کیونکہ اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس موجود ہی نہیں۔ اور جہاں یہ سہولت موجود ہے وہاں بھی سروس میں بار بار خلل کی وجہ سے پڑھائی بہت متاثر ہورہی ہے۔ سکول بند ہونے کے باوجود والدین باقاعدگی سے اپنے بچوں کی پوری فیسیں جمع کرارہے ہیں۔ اس لئے تعلیمی اداروں کے مالی نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ملک کے کروڑوں بچوں کو مزید تعلیمی نقصان سے بچانے کیلئے تعلیمی ادارے فوری طور ایس او پیز کے تحت کھولنے کی ضرورت ہے۔ تاہم کلاسوں میں سماجی فاصلے پرعمل درآمد کے لئے شفٹوں اور باریوں میں کلاسیں لی جاسکتی ہیں۔حکومت کا یہ موقف عین قومی مفاد میں ہے کہ کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں بند اورملک میں مکمل لاک ڈاؤن کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ چودہ مہینوں سے کورونا کی وباء کا قوم کو سامنا ہے۔ اور اس کے خاتمے سے متعلق بھی طبی ماہرین کچھ بتانے سے قاصر ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کورونا کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے جینے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ اور اس کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ کس طرح معمولات زندگی بھی رواں دواں رہی اور ساتھ ساتھ بیماری کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکے ہر شعبے میں اس کی مناسبت سے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے جا سکتے ہیں جہاں احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح امور کو سرانجام دینا ضروری ہے کہ سماجی فاصلے اورماسک کو اب زندگی کا حصہ قرار دینا چاہئے۔