انسداد منشیات: ناکافی کوششیں!۔۔۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران پشاور سے 1006 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا ہے جو ’میتھ‘ نامی نشہ فروخت کرتے تھے۔ اِن کے قبضے سے مجموعی طور پر 74 کلوگرام میتھ برآمد ہوئی ہے اور اِن منشیات فروشوں میں 3 خواتین بھی شامل ہیں۔ نشہ آور ادویات کی فہرست میں کرسٹل‘ میتھ یا آئس نامی نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مختلف کیمیائی مادوں سے اِسے تخلیق کرنے کا سہرا جاپانی اور جرمنی کے کیمیا دانوں کے سر ہے جنہوں نے 1893ء سے اِسے متعارف کروایا۔ اِس سے قبل 1887ء میں جرمنی کے کیمیا دانوں نے بھی نئی قسم کے نشے کو دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن جرمنی نے اِس دریافت کے بعد منصوبے کو 1920ء تک سردخانے میں رکھا اور 1920ء میں اِس سے دماغی و نفسیاتی و دیگر امراض کی انتہائی حالتوں کا شکار مریضوں کے علاج میں میتھ کے بطور دوا استعمال کے تجربات کا آغاز ہوا۔ 1930ء میں میتھ کو بطور دوا ’بینزیڈرین کے نام سے متعارف کروایا گیا جو سانس کے بیماری میں مبتلا مریضوں کو فوری آرام کیلئے استعمال ہونے لگی۔ میتھ بنانے کے لئے کیمیائی مادہ ایفیڈرا (Ephedra) نامی پودے سے حاصل کیا جاتا ہے جو صدیوں سے گھریلو نسخے کے طور پر کھانسی اور سینے کے امراض جن میں سانس لینے میں تکلیف کے علاج میں استعمال کیا جاتا رہا ہے‘ جس میں پودے کو گرم پانی میں ڈال کر یا اُبال کر مریض کو دیا جاتا ہے اور اِس طریقے سے دوا بنانے کو ’برمنگھم چائے (قہوہ)‘ کا نام بھی دیا گیا۔ جڑی بوٹی سے سکون آور کیمیائی مادہ کشید کر کے ’میتھ‘ کی تیاری سے قبل بطور نشہ آور اشیا میں افیم‘ حشیش (چرس) اور ہیروئن استعمال ہوتے رہے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ سبھی قسم کے نشے پاکستان کے طول و عرض بالخصوص خیبرپختونخوا میں ملتے ہیں جن کا استعمال کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ مذکورہ منشیات کی اقسام میں آئس نئے قسم کا نشہ آور مادہ ہے جو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ملتا ہے۔ اس کی ایک قسم ہلکے بھورے رنگ کے کرسٹل نما پاؤڈر (سفوف) کی صورت میں ہوتی ہے جس کی بو بہت ہی تیز اور ذائقہ انتہائی کڑوا ہوتا ہے۔ اِسے سگریٹ میں بھر پیا جاتا ہے جبکہ سرنج کے ذریعے جسم میں داخل کرنے پر یہ پندرہ سے تیس سیکنڈز میں اپنا اثر دکھانا شروع کردیتی ہے۔ ناک کے ذریعے آئس کھینچنے پر یہ تین سے پانچ منٹ کے اندر جبکہ منہ کے ذریعے استعمال کرنے پر اسے پندرہ سے بیس منٹ اثر دکھانے کا وقت لگتا ہے۔   نشہبارہ سے چودہ گھنٹے جبکہ دوا کا اثر تیس سے چھتیس گھنٹے تک جاری رہتا ہے لیکن اس نشے سے فوراً پیدا ہونے والا ’شدید نشہ‘ جلد ہی اترنا شروع ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نشہ کرنے والے اکثر اس کی خوراک بار بار لینے کی طلب محسوس کرتے ہیں‘اِس پوری تمہید اور واقعات کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ نشہ آور اشیا کی باآسانی (باسہولت) دستیابی اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں اِن کے بڑھتے ہوئے استعمال سے متعلق حقائق و شواہد تشویشناک ہیں‘ جن سے بچاؤ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ والدین (اہل خانہ‘ عزیز و اقارب)‘ اساتذہ‘ تعلیمی اداروں کے انتظامی نگران اور دوست احباب بھی متعلقہ ہم عصروں پر نظر رکھیں۔ یہ امر اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی نشہ آور مادے استعمال کر رہی ہیں اور طالبات کیلئے مخصوص و مخلوط تعلیمی اداروں سے اِس قسم کے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے گروہ پکڑے جو تعلیمی اداروں میں میتھ (آئس) اور دیگر نشہ آور اشیا فروخت کرتے رہے۔ 1987ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسداد منشیات کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے بعد 1989ء سے ہر سال انسداد منشیات کا عالمی دن (26 جون) اقوام متحدہ تنظیم کے رکن ممالک میں باقاعدگی منانے کا مقصد ’منشیات کے خلاف عوامی سطح پر شعور اُجاگر‘ کرنا جبکہ حکومتی سطح پر ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ پاکستان میں یہ دن شعور سے انسداد منشیات کے اہداف تک رسم سے زیادہ نہیں۔