سادہ سا فارمولا تھا قیمتو ںکاتعین ،ذخیر ہ اندوزی و مہنگائی کی ممانعت ،کڑی نگرانی اوربدترین سزائیں ،اورپھر اس وقت کے ہندوستان کے بیس کروڑ انسانوں نے پہلی بارانتظامی انقلاب اوربازار پرشاہی گرفت دیکھی کہنے تو سلطان علاﺅالدین خلجی ایک سفا ک بادشاہ تھا جس نے اپنے چچا و سسرسلطان جلال الدین خلجی کو قتل کرکے تخت پرقبضہ کیاتھا مگر قدرت نے اس کے ہاتھ ایسا کام لیاکہ ہندوستان تو کیا پوری دنیا کی تاریخ میںمثال مشکل سے ملے گی اس کی ہر سفاکی و خون آشامی معاف کی جاسکتی ہے کیونکہ اس نے ہزاروںلوگوںکے خون سے ہاتھ رنگ کرجو مملکت حاصل کی تھی وہ عوامی فلاح وبہبودکے لحاظ سے بے نظیر مملکت تھی اس سلسلے میں رشید اختر ندوی نے اپنی کتاب مسلمان حکمران میں تفصیل سے یہ سب کچھ بیان کیاہے جب حکومت میں آنے کے تیسرے سال کے دوران اس نے اپنے وزیر علاﺅ الملک اور حضرت خواجہ نظام الدین کی دعا سے ایک ایسا فارمولہ تیار کیاکہ اس کی رعایا کی ہرضرورت پوری ہو ایک قسم کی معاشی ابتدائی مساوات قائم ہوجائے کوئی ذخیرہ اندوزی ،رشوت ،بے ضابطگی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں دکھائی نہ دے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کےلئے اس نے برصغیر کی تاریخ میں پہلی باراعلان کیاکہ آئندہ نرخ بادشاہ کی طرف سے مقرر ہونگے سرکار غلہ ذخیرہ کرے گی جن منڈیوں میں اناج بکنے کےلئے آئے گا ان کی نگرانی نیک اورمستعد سرکاری عمال کے سپرد ہوگی ہرمنڈی و بازار میں غلہ تاجروں کی نگرانی کےلئے ایک دفتر قائم کیاجائے گا جہاں سے ان کے معاملات کی دیکھ بھال ہوسکے گی اس کے ساتھ اس نے حکم دیاکہ کسی بھی زمین دار ،جاگیردار یا کاشتکار کے پاس دس من سے زیادہ غلہ ذخیرہ کرنے کےلئے نہ بچے زمیندار ہرفصل پر دس من سے زائد غلہ تاجروں کے پاس سرکاری نگرانی میں فروخت کریں اور سرکاری نرخوں پر ہی فروخت کریں سرکاری افسران کوپابند بنایا گیاکہ منڈی میں جتنا غلہ لایاگیااورجتنا فروخت کیاگیا اس کی رپورٹ بادشاہ کو دیتے رہیں ساتھ ہی اس نے یہ حکم بھی دیاکہ جن دنوں بارش نہ ہو کوئی شخص سرکاری عمال کی مرضی یا اجازت کے بغیر منڈی سے غلہ نہ خریدے علاﺅالدین کے اس فارمولے پر اس سختی کے ساتھ عمل ہوا کہ کسی ایک جگہ بھی ذخیرہ اندوزی نہ ہوسکی نہ ہی پوشیدہ کاروبارکو فروغ مل سکا اس سلسلے میں اس نے اتنی سخت سزائیں تجویز کیں کہ تاجر اور زمیندار انکے تصورسے ہی کانپ اٹھتے تھے کہاجاتاہے کہ اس حکم پر عملدر آمد سے قبل ہرجگہ کے تاجروں کے گلوں میں طوق اورپاﺅں میں اس وقت تک بیڑیاں پہنائی رکھی گئیں جب تک سب نے مل کراپنااپنا غلہ منڈی میں لانے کاپختہ اقرارنہ کرلیا گویا انکو سزا کی ہلکی سی جھلک پہلے ہی دکھادی گئی تھی تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس سختی کے نتیجے میں تاجران غلہ خریدتے ہی منڈی میں لے آتے سرکاری ذخیروں کے حوالہ سے یہ طے ہواکہ مخصوص زمینوںکا غلہ سرکاری ذخیروں تک پہنچے اورخشک سالی کے مواقع کےلئے محفوظ رہے شہروں کے ساتھ ساتھ قصبات تک میں سرکاری ذخیرے قائم کیے گئے تاکہ اگر کسی وقت بازار کے نرخ چڑھنے لگیں تو سرکاری ذخیرہ بازارمیں آجائے اورنرخ برقراررہے ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے اسی فارمولے کے تحت ہرعلاقہ کے غلہ کے تاجروں کو اسی علاقہ میں جبری طورپربسایا گیا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں اور ان کی مﺅثر نگرانی ہوسکے ہر منڈی کے نگران کو ایک طرح سے مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے گئے تاکہ وہ بددیانت اور نافرمان تاجروں کو سزائیں دے سکیں سلطان کے حکم سے پورے ہندوستان میں غلہ کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قراردیاگیا بادشاہ کی طرف سے اس وقت کی ضلعی انتظامیہ اور اعلیٰ حکام کو حکم جاری کیاگیاکہ اگر کہیں ذخیرہ اندوزی ہویا مصنوعی مہنگائی ہو تو عبرت ناک سزائیں دی جائیں اسی فارمولے کے تحت یہ بندوبست کیاگیاکہ بادشاہ کو ہرروز کے نرخ معلوم ہوتے رہیں اس کے لیے تین پرتی نظام قائم کیاگیا یہ نظام منڈیوں کے نگرانوں ،انٹیلی جنس اہلکاروں اور خود منڈیوں کے آڑھتیوں پر مشتمل تھا ان تینوں کی رپورٹوں کاجائزہ لیا جاتا فرق ہوتا تو سخت جواب طلبی کی جاتی اس سختی کانتیجہ یہ نکلا کہ کسی منڈی میں کوئی گڑبڑ نہ ہوتی حتیٰ کہ خشک سالی کے موقع پر بھی سرکاری نرخوں میں کوئی فرق نہیں آیا سرکاری محاسب اورنگران ہرلمحہ منڈی میں موجود رہتے لین دین کامشاہدہ کرتے اگرکہیں گڑبڑہوتی تو سخت سزائی دی جاتیںبادشاہ کی طرف سے فرضی گاہک بھی منڈی جاکرخریداری کرتے ان چیزوں کو پھرعلاﺅالدین اپنے سامنے تلواتا پھر ان کے نرخو ں کا اندازہ کرتا اگر فرق آتا تو پھر سزاملتی سب سے کم سزایہ تھی کہ ناک اورکان کاٹ لیے جاتے جو لوگ کم تولتے اتناہی گوشت ان کے جسموں سے کاٹ لیا جاتا یہ اتنی سخت سزائیں تھیں کہ ایک بار کسی کو ملی تو اس کے بعدسے سب تیر کی طرح سیدھے ہوگئے علاﺅالدین کی سخت گیری کی وجہ سے بیوروکریسی بھی خواب غفلت سے جاگ گئی تھی جو افسر رشوت لیتے پکڑا جاتا تو اسی بازار میں سرعام پھانسی پرلٹکادیاجاتا اور نعش پھرکئی کئی روزتک لٹکی رہتی علاﺅالدین کے اس فارمولے کی وجہ سے ہندوستان کے بیس کروڑ انسانوں کو اس وقت معاشی مساوات کی نعمت عطاءہوئی جب اس کاتصوربھی باقی دنیا میں ناممکن تھا سادہ سا فارمولہ تھاکہ اشیائے ضروریہ کے نرخ حکومت مقررکرتی ،ذخیرہ اندوزی کی سخت ممانعت تھی ، سرکاری حکام اور تاجروں کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی اورسب سے بڑھ کر خلاف ورزی کے مرتکبین بدترین سزائیں پاتے تھے ایک ایسے وقت میں کہ جب ذرائع مواصلات انتہائی کم اورکمزور تھے پورے ہندوستان میں اس فارمولے کو کامیابی کے ساتھ نافذکرکے پھرپورے دوعشرے تک چلانا اس با ت کاثبوت ہے کہ حکمران بیدارمغز ہوں تو کوئی بھی من مانی نہیں کرسکتا موجودہ حکمرانوں کو بھی زیادہ محنت کرنے کی بجائے محض خلجی فارمولے کو سامنے رکھ کر عمل پیرا ہوناچاہئے یقین مانیں کہ کسی کو بھی ذخیرہ اندوزی ،مصنوعی مہنگائی اور رشوت خوری کی جرات نہیں ہوسکے گی صرف علاﺅ الدین خلجی کی طرح اس معاملہ میں ہرقسم کے رشتے وتعلق سے بالا تر اورسخت دل ہوناضروری ہے ۔