لمحہ¿ فکریہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود کورونا وبا پھیلنے کی شرح میں غیرمعمولی (ناقابل یقین) رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں نئے متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویشناک ہے۔ ضلع مردان میں ہر 100 افراد میں سے 26.9 فیصد جبکہ ضلع پشاور میں 25فیصد اور نوشہرہ میں 22 فیصد افراد کورونا (Covid-19) میں مبتلا پائے گئے ہیں اور مریضوں کی یہ شرح صرف خیبرپختونخوا ہی میں نہیں بلکہ ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے اُور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سماجی رابطوں میں ’احتیاطی تدابیر (SOPs)‘ کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ ناقابل یقین ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا متاثرین کی تعداد 1 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اگر پورے صوبے کی اوسط نکالی جائے تو یہ 7 فیصد ہے جبکہ اِسے عالمی معیار کے مطابق ڈھائی فیصد یا اِس سے کم ہونا چاہئے۔عالمی ادارہ¿ صحت (WHO) نے پاکستان میں کورونا وبا سے متاثرہ اضلاع کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں 17 ایسے اضلاع کا ذکر کیا گیا ہے جہاں کورونا وبا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اِن اضلاع میں سرفہرست خیبرپختونخوا کے تین اضلاع (مردان‘ پشاور اور نوشہرہ) ہیں جبکہ فہرست میں خیبرپختونخوا کے دیگر 2 اضلاع سوات اور ایبٹ آباد کا نام بھی شامل ہے۔ صوبائی محکمہ¿ صحت بھی ہر دن ’صورتحال کا جائزہ (سیچویشن رپورٹ)‘ جاری کرتا ہے جس میں شامل اعدادوشمار زیادہ مختلف تو نہیں لیکن اِن میں کورونا سے متاثرہ اضلاع کی ترتیب عالمی ادارہ¿ صحت کی فہرست سے مختلف ہے اور کورونا سے انتہائی متاثرہ اضلاع میں باجوڑ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ گنجان آباد پشاور میں 24 گھنٹوں کے دوران 1 ہزار 62 کورونا مریضوں کا اضافہ ہوا ہے جس سے علاج معالجے کی سہولیات پر دباو¿ برقرار ہے اور اگر ہر دن ایک ہزار سے زیادہ نئے مریضوں کا اضافہ ہوتا رہا تو علاج گاہوں کےلئے ممکن نہیںرہے گا کہ وہ اِس قدر مریضوں کا بوجھ اُٹھا سکے۔ فیصلہ سازی کے مراحل سے آگاہ محکمہ¿ صحت کے ایک انتظامی اہلکار کے مطابق ”حکومت نے کورونا کی جاری تیسری لہر اور اِس کی شدت کا اَندازہ نہیں لگایا تھا۔ اُمید یہی تھی کہ کورونا کیسیز میں موسم گرما کے ساتھ کمی آئے گی لیکن بارشوں کی وجہ سے موسم گرما کا آغاز قدرے تاخیر سے ہوا جبکہ کورونا کا جرثومہ بھی پہلے سے زیادہ پیچیدہ صورت میں سامنے آیا ہے اور اِس سے محفوظ رہنے کی کوشش ہی بہترین تدبیر ہے لیکن اِس پر عوام کی اکثریت عمل نہیں کر رہی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ رمضان المبارک کے دوران مساجد میں بالعموم کورونا ایس اُو پیز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا جو غیرذمہ دارانہ طرزعمل ہے۔کورونا سے متعلق ایک مطالعہ (جائزہ) خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ معالجین (ڈاکٹر آصف علی اور ریسرچ ایسوسی ایٹ نثار احمد) کی کوششوںکا نتیجہ ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ مختلف عمروں کے لحاظ سے کورونا متاثرین کی تعداد مختلف ہے۔ پہلے ایج گروپ میں ایک سے دس سال تک کے بچوں میںکورونا کی پہلی لہر کے دوران مثبت کیسز کی شرح 18.6 فیصد‘ دوسری لہر میں 3.9 فیصد اور جاری تیسری لہر میں 4.2 فیصد رہی۔ ذہن نشین رہے کہ پہلی لہر سے مراد فروری 2020ءسے اکتوبر 2020ءہوتی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر نومبر 2020ءسے فروری 2021ءتک رہی جبکہ جاری تیسری لہر کو مارچ 2021ءسے شمار کیا جاتا ہے۔ پہلی لہر کے دوران مجموعی طور پر 2 لاکھ 8 ہزار افراد (72فیصد مرد اور 28فیصد خواتین) کے کورونا ٹیسٹ کئے گئے۔ دوسری لہر میں 2 لاکھ 64 ہزار 500 افراد (65فیصد مرد اور 35فیصد خواتین) سے زائد کے کورونا ٹیسٹ کئے گئے اور تیسری لہر میں 76 ہزار سے زائد ٹیسٹ ہو چکے ہیں جن میں 61فیصد مرد اور 39فیصد خواتین شامل ہیں۔ اگر اِن اعدادوشمار پر غور کیا جائے تو خواتین کے کورونا ٹیسٹوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کیسیز کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ پہلی اور دوسری کورونا لہر میں خواتین کے کورونا ٹیسٹ مردوں کے مقابلے کم کئے جاتے تھے جو اگرچہ اب بھی کم ہیں لیکن اِس مطالعے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ خواتین کو نظرانداز کر کے کورونا وبا کے خلاف کامیابی ممکن نہیں۔ کورونا وبا کسی ایک جنس یا طبقے سے متعلق (مخصوص) نہیں بلکہ اِس کا خطرہ ہر مرد و زن کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ہے۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ کورونا جس سنجیدگی اور احتیاط کا متقاضی ہے اُسے نظرانداز نہ کیا جائے بلکہ شعور اور ذمہ داری کا ’کل وقتی مظاہرہ‘ کرتے ہوئے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کےلئے چہرہ ڈھانپ کر رکھنا (ماسک کا استعمال)‘ مصافحہ اور معانقہ (ہاتھ ملانے‘ گلے ملنے) سے گریز‘ چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا اور بھیڑ بھاڑ والے مقامات و اجتماعات میں شرکت سے گریز کرنا شامل ہے۔