قبائلی معاشرے میں تبدیلی۔۔۔۔

خیبر پختوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی آبادی ایک کروڑ سے متجاوز ہے۔ جن میں نصف آبادی خواتین کی ہے۔ قبائلی خواتین صلاحیتوں کے اعتبار سے مردوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ انہیں جب بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ہے انہوں نے اپنی قوم اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ کھیل، تعلیم، ٹیکنالوجی اور فنون سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ تاہم صلاحیتوں کے اظہار کا موقع اب تک صرف پانچ فیصد خواتین کو ہی مل سکا ہے۔ سورہ، کاروکاری، وٹہ سٹہ جیسی قبائلی رسومات آج بھی مختلف معاشروں میں مختلف ناموں سے موجود ہیں اوران قبیح روایات سے بغاوت کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عورت ہی ان قبیح رسومات میں قربانی کا بکرا کیوں بنے۔وہ کسی کی ذاتی دشمنی کی بھینٹ کیوں چڑھے۔ اس تمام رسومات کی بنیاد جہالت، لاعلمی اور دین اسلام سے ناواقفیت ہے۔ اسلام نے عورت کو سب سے اونچا مقام عطا کیا ہے۔ لیکن معاشروں میں موجود فرسودہ اور بیہودہ روایات نے عورت سے اسلام کا دیاہوا مقام چھین لیا ہے۔ آئین میں ترمیم کے بعد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اورکزئی، کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان، خیبر، باجوڑ اور مہمند کو ایجنسی کے بجائے ضلع کا درجہ دیا گیا، وہاں بالغ رائے دہی کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے نمائندوں کا چناؤ کیاگیا۔ علاقہ غیر کہلانے والے علاقے اب صوبے میں شامل ہوگئے ہیں آئین کے تحت پاکستانی شہری ہونے کے ناطے قبائلی علاقوں کے ایک کروڑ عوام کو تمام شہری حقوق حاصل ہیں وہاں عدالتیں، پولیس کا نظام اور تمام سرکاری محکمے قائم کئے گئے ہیں۔ لوگوں کی معاشی ترقی اور شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں لیکن لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا سب سے اہم کام ابھی باقی ہے۔ اور ذہنوں کی تبدیلی صرف اور صرف تعلیم عام کرنے سے ہی ممکن ہے وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج نے مختلف قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے دوران تباہ کئے گئے سکولوں کو بحال کیا ہے نئے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی قائم کی جارہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم نسواں پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے۔ قبائل کی پچاس لاکھ کی نسوانی آبادی کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا تو ذہن تبدیل ہوں گے خاندانوں کی اصلاح ہوگی۔ لوگوں کو اپنے حقوق اور فرائض کا ادراک ہوگا۔ جب کسی قوم میں شعور بیدار ہوجائے تو اس کے سامنے ترقی کے راستے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اقدامات مزید تاخیر کا شکار ہونے کے متحمل نہیں اور جس قدر جلد ہوسکے قبائلی علاقہ جات میں تعلیمی سہولیات تمام مردو زن کیلئے میسر ہوں تاکہ علم کی روشنی سے یہ علاقہ منور ہوکر حقیقی تبدیلی سے ہمکنار ہوسکے۔