پشاور کہانی: صفائی مہم۔۔۔۔

ضلعی انتظامیہ نے ”میرا صاف پشاور مہم“ کا آغاز کرتے ہوئے کوڑا کرکٹ یا گندگی مقررہ مقامات کے علاوہ پھینکنے یا پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت گلی‘ محلے یا کاروباری مراکز پر گندگی پھیلانے والوں کو پانچ ہزار روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔ تجاوزات کے مرتکب افراد کو بھی جرمانے ہوں گے جبکہ کاروبار کی جگہوں یا صنعتوں کی حدود میں صفائی کا خیال نہ رکھنے والوں کو بھی جرمانہ ہوگا۔ اِس عمل کی نگرانی اور پشاور کو صاف رکھنے کی ’تازہ دم کوشش‘ کی نگرانی اور عمل درآمد ڈپٹی کمشنر پشاور (کیپٹن ریٹائرڈ خالد محمود) کریں گے جنہوں نے متعلقہ اہلکاروں کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یادش بخیر جنوری 2019ء میں ’صفا پیخور‘ کے نام سے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) نے ’صفائی مہم‘ شروع کی تھی جسے کامیاب بنانے کے لئے ایک موبائل فون ایپلی کیشن بھی بنائی گئی تاکہ اہل پشاور جہاں کہیں گندگی (کوڑا کرکٹ کے ڈھیر) دیکھیں اُس کے بارے میں تصویر‘ ویڈیو اور پیغام کے ذریعے متعلقہ اہلکاروں کو مطلع کریں اور اِس طرح پہلی مرتبہ ’گلوبل پوزیشنگ سسٹم (GPS)‘ سے استفادہ کرتے ہوئے پشاور میں صفائی کی صورتحال مثالی بنانے کی کوشش کی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ ’جی پی ایس‘ نامی عالمی نظام 30 سے زائد خلائی سیاروں پر مشتمل ہے‘ جو اگرچہ دفاعی مقاصد کیلئے تخلیق کردہ ہے لیکن اِس کا غیردفاعی اور مفت استعمال زمینی راستوں کے رہنمائی کے علاوہ شہری ترقی و سہولیات و خدمات کی فراہمی کیلئے بھی کیا جاتا ہے جبکہ زرعی شعبے میں اِس نظام کی مدد سے کھیتوں کو اِس طرح ہموار کیا جاتا ہے کہ آبپاشی کے دوران پانی کی بچت ہو۔ ’صفا پیخور‘ کے عنوان سے لاکھوں روپے نئی حکمت عملی پر خرچ کرنے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کا تجربہ اگر کامیاب ہوتا تو ضلعی انتظامیہ (ڈی سی‘ اے سی اور اے اے سیز) کو میدان میں نہ کودنا پڑتا اور صفائی کی بنیادی ذمہ داری جس حکومتی ادارے (WSSP) کی ہے اُس ہی کے افرادی و تکینکی وسائل سے استفادہ کیا جاتا۔ اگر ’ضلعی انتظامیہ‘ کو پشاور میں صفائی کی صورتحال خراب (ابتر) دکھائی دی جو کہ صرف خراب نہیں بلکہ بدترین ہے تو اِس سلسلے میں ڈبلیو ایس ایس پی حکام کو طلب کرکے ایک ایسی حکمت عملی بنائی جاتی جس میں عام آدمی (ہم عوام) اور بالخصوص پشاور کی تاجر برادری کو شریک کیا جاتا کیا ضلعی انتظامیہ کے پاس اِس قدر افرادی قوت اور تکنیکی و مالی وسائل موجود ہیں کہ وہ ہر گلی‘ بازار اور علاقے کے چپے چپے کی نگرانی کر سکے لائق توجہ ہے کہ اہل پشاور کی بصورت جرمانہ مزاج پرسی کرنے سے پہلے اِن کے مزاج (عادات) کو سمجھنا ضروری ہے۔ کون سمجھے گا کہ اِنہیں جس کسی کام کی بھی ایک مرتبہ عادت پڑ جائے یہ اُسے باآسانی ترک نہیں کرتے اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بھی ایسی ہی ایک روایت اور سہل پسند ’روئیوں‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس گلی کے کونے (نکڑ) یا لب سڑک کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دکھائی دیں تو سمجھ جائیں کہ گندگی یہاں وہاں (بے ترتیب انداز میں پھینکنے) کا معمول باآسانی تبدیل نہیں ہوگا چاہے لاکھوں جتن اور لاکھوں مالیت کے جرمانے کر دیئے جائیں لیکن گندگی پھینکنے کی بھیڑ چال تبدیل نہیں ہوگی۔ بنیادی ضرورت اہل پشاور کو صفائی کی اہمیت سے روشناس اور صفائی مہم میں تعاون کیلئے آمادہ کرنا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ صفائی کے عمل میں تاجر برادری خاطرخواہ تعاون نہیں کرتی اور نہ ہی صفائی پر اُٹھنے والے حکومتی اخراجات کا احساس کرتی ہے۔ تجارتی مراکز کیلئے یونین کونسل کی سطح پر صفائی ٹیکس لاگو ہونا چاہئے جس کی بلدیاتی قانون و قواعد میں گنجائش بھی موجود ہے۔ سردست صورتحال یہ ہے کہ ہر صبح بازار کھلنے سے قبل خاکروب (سوئپرز) صفائی کرتے ہیں یا رات گئے بازاروں میں جھاڑو لگا دیا جاتا ہے لیکن جب صبح ہوتی ہے اور بازار جاگتے ہیں تو ہر دکاندار جھاڑ پونچھ کرتا ہے جس کے بعد پیدا ہونے والا کوڑا کرکٹ سارا دن بازاروں میں ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔ اندرون پشاور کے بازاروں میں دکانداروں کی اکثریت کامعمول ہے کہ یہ کوڑاکرکٹ نکاسیئ آب کے نالے نالیوں میں بہا دیتے ہیں‘ جس سے مختلف قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں اور شاید ہی پشاور شہر کا کوئی ایک بھی علاقہ ایسا ہو جہاں نکاسیئ آب کی نالیاں اپنی پوری صلاحیت کے مطابق پانی کا نکاس کر رہی ہوں! ضلعی انتظامیہ صفائی کے ساتھ تجاوزات کا بھی نوٹس لے اور دکانداروں نے جن نالے نالیوں پر قبضہ کر رکھا ہے اُسے واگزار کروایا جائے تاکہ دکانوں کے نیچے چھپ جانے والی نالے نالیوں کی صفائی ممکن ہو۔ پشاور کی صفائی منصوبہ بندی اور حکیمانہ اقدامات کی متقاضی ہے۔ ہر بازار کی الگ الگ تاجر تنظیمیں موجود ہیں بلکہ کئی ایک بازار (تجارتی مراکز) تو ایسے بھی ہیں جہاں ایک سے زیادہ تاجروں کی تنظیمیں ہیں دعوت فکر ہے کہ جس پشاور سے تاجروں کا روزگار‘ عزت‘ سیاست اور پہچان وابستہ ہے اُس کی انتہائی بنیادی ضرورت یعنی صفائی کیلئے اگر حکومتی اداروں سے تعاون نہیں کریں گے تو کوڑا کرکٹ اُٹھانے کی صلاحیت میں چاہے کتنا ہی اضافہ کر لیا جائے اور کتنی ہی اچھی سے اچھی حکمت عملی وضع کر لی جائے جس میں زمینی وسائل سے خلائی سیاروں تک کی مدد لی گئی ہو لیکن اُس کے خاطرخواہ (کامیاب) نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ضرورت اِس اَمر کی بھی ہے کہ صفائی اور پینے کا صاف پانی فراہم کرنے والے متعلقہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کا دائرہئ کار پشاور کی تمام 92 یونین کونسلوں تک پھیلایا جائے۔ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ اگر پشاور کی صفائی کی جانب روایتی طور پر ایک مرتبہ پھر متوجہ ہوئی ہے جیسا کہ ہر سال عید الفطر‘ عیدالاضحی اور محرم الحرام کے مواقعوں پر ’گہما گہمی‘ دیکھنے میں آتی ہے تو ’پلٹنے جھپٹنے اور جھپٹنے پلٹنے کی صورت لہو گرم رکھنے کے اِس بہانے‘ میں چھپی توانائی‘ امکان اور ضرورت کو محسوس کیا جائے کیونکہ صفائی شہری زندگی کا حسن ہونے کے ساتھ نصف ایمان بھی تو ہے۔