ہردور میں سینکڑوں سرکاری افسر آتے ہیں‘ اپنی اچھی یا بری کارکردگی کے ساتھ کسی محکمے شہر یا صوبے میں وقت گزارتے ہیں اور تبدیل یا ریٹائر ہو جاتے ہیں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی سرکاری افسر کا نام عام آدمی کو کئی سال تک یاد رہتا ہے ہمارے لوگ بہت جلد بھول جانے کے عادی ہیں جو لوگ کام نکلوانے اور تعلق بنانے کے شوقین ہوتے ہیں وہ سرکاری افسر کے تبدیل یا سبکدوش ہونے کے ساتھ ہی اس کو بھول کر نئے آنے والے افسر کے گن گانے لگتے ہیں ان کا کام چلتا رہتا ہے مگر کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک صوبے شہر یا محکمے میں چند ماہ یا سال گزارتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اپنے کام کے انداز سے اپنی ایمانداری یا شرافت سے یا اپنے ہنر اور قابلیت سے۔گزشتہ روز خیبرپختونخوا پولیس کے ساتھ کمانڈر ناصرخان درانی کورونا سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے تو ملک بھر اور بیرون ملک مقیم انکے مداحوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا جو کسی بھی ریٹائرڈ سرکاری افسر کیلئے ایک انہونی بات ہے وزیراعظم عمران خان اور اہم حکومتی اور اپوزیشن شخصیات سے لیکر سرکاری افسران اور عوام تک ہر کسی نے ناصر خان درانی کو اپنے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور وفات کے بعد انکے درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کیں ان مداحوں نے ناصر درانی کو ایک ایسا سرکاری افسر قرار دیا جس نے اپنے کیرئیر کے دوران خصوصاً اپنی ملازمت کے آخری کئی سالوں میں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کیلئے بے شمار اقدامات کئے اور خیبرپختونخوا پولیس کو ایک مثالی فورس بنانے اور تھانوں اور دفاتر میں اصلاحات کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ بہت سے سرکاری افسر آتے ہیں ایک محکمے میں چند سال رہ کر اچھی یابری شہرت حاصل کرتے ہیں کوئی عزت اور محبت کماتا ہے کوئی دولت کمانے کے چکر میں ہوتا ہے کوئی تعلق بنانے اور کوئی نام بنانے کا شوقین ہوتا ہے بہت سے لوگ صرف نوکری کرنے آتے ہیں صبح آکر سارا دن بیٹھے رہتے ہیں اور وقت سے دو تین گھنٹے قبل کوئی بہانہ بنا کر نکل جاتے ہیں اور ہر مہینے کی پہلی تاریخ تنخواہ لیکر خوش ہوتے ہیں ایسے بھی کئی چھوٹے بڑے افسران اور اہلکار ہوتے ہیں جو آنے والے سائلین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ملازمت کو امانت سمجھ کر اپنا فرض بطریق احسن انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ان لوگوں کے بے شمار مخالفین بھی ہوتے ہیں جو قدم قدم پر انکی مخالفت کرتے‘ انکے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہیں اور انکے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ہر ایک کا اپنا ظرف ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے کردار اور تربیت کے مطابق ملازمت کرتا ہے سال گزر جاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کی عمر آجاتی ہے‘ دیکھا جائے تو ناصر درانی کو سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے بھی4سال سے زائد گزر چکے ہیں ملازمت کے بعد انکو احتساب کمیشن کا چیئرمین بننے اور خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ بننے کی بھی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے نرمی کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کیا، ایک بار ان سے وجہ پوچھی تو جواب دیا وہ لاہور جاکر اپنی والدہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں پاکستان تحریک انصاف نے جب 2013 میں صوبائی حکومت قائم کی تو تعلیم صحت اور پولیس میں اصلاحات انکی اولین ترجیح رہی پولیس میں اصلاحات کیلئے ناصر درانی کی بطور آئی جی تعیناتی کا فیصلہ ہوا تو انکی صرف ایک شرط تھی کہ وہ اس وقت یہ پیشکش قبول کرینگے جب انکو مکمل اختیارات دیئے جائینگے اور فورس کے معاملات میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے مکمل یقین دہانی کے بعد ناصر درانی نے نہ صرف میرٹ پر افسران کی تعیناتی کی بلکہ بدعنوان افسران اور اہلکاروں کو کڑی سزائیں دیں کانسٹیبل اور جونیئر اہلکاروں کی تنخواہوں اور مراعات کیلئے ہر حکومتی اہلکار کے پاس گئے‘ شہداء پیکیج میں اضافہ کردیا‘ خصوصی سکولوں کے ذریعے اہلکاروں کی استعداد کار کو بڑھایا [سی ٹی ڈی ایلیٹ فورس کو بہتر بنایا ڈی آر سیز‘ پولیس سٹیشن‘لائنز پولیس ایکسس سروس‘ ماڈل پولیس سٹیشن ویمن ڈیسک قائم کئے افسروں اور اہلکاروں کو عوام کا جوابدہ بنایا اور عوام اور فورس کے درمیان خلیج کو کم کیا چند ماہ بعد ہی عمران خان اور تحریک انصاف نے کے پی پولیس کو ایک ماڈل فورس کے طور پر پیش کرنا شروع کیا ان سب کے پیچھے جس ایک شخص کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا وہ ناصر خان درانی تھا‘بلاشبہ جو لوگ کام کرتے ہیں عام آدمی کو اس کا حق پہنچاتے ہیں اپنے ماتحت افسران اور اہلکاروں کا خیال رکھتے ہیں مگر بدعنوانی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے وہ نہ صرف ریٹائرمنٹ بلکہ موت کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔