امریکی صدر جو بائیڈن نے حتمی طور پر افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے باقاعدہ انخلاء کا شیڈول جاری کردیا ہے جس کے مطابق امریکی افواج کے انخلاء کا عمل یکم سے مئی 2021سے شروع ہوجائے گا جبکہ یہ عمل 11سمتبر 2021تک تکمیل کو پہنچ جائے گا اور یوں افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ امریکی اور نیٹو افواج کے نکل جانے کے بعد کے منظر نامے پر طرح طرح کی قیاس آرئیاں کی جا رہی ہیں جن میں طالبان کا افغانستان میں بھرپور قوت کے ساتھ عمل داری قائم کرنا قدرِ مشترک ہے۔ گزشتہ ونوں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ افغانستان میں کھیل ختم ہوچکا ہے، طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے اور اب فوجی انخلاء کے تناظر میں طالبان ایک جیتی ہوئی قوت کے طور پر سامنے آئے ہیں، اخبار کے مطابق طالبان کا طرزِ عمل ایک جیتی ہوئی فورس کا ہے۔نیویارک ٹائمز نے افغان فورسز کے حوالے سے کہا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز اپنا اعتماد کھو رہی ہیں اور ان میں اپنے مورچوں سے پسپائی اختیار کرنے کا عمل بڑھتا جا رہا ہے، اس بارے میں افغانستان کے شہر قندھار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں افغان سکیورٹی فورسز نے یہاں طالبان کے حملوں کی وجہ سے 200مورچے خالی کردئیے تھے، رپورٹ کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز کو ہر ماہ اوسطاً 3000ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے اخبار مزید لکھتا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے افسران سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو شکست دینے کے بعد طالبان انہیں بھی شکست دے کر پورے ملک پر قابض ہوجائیں گے۔ طالبان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ طالبان امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کی صورتحال کو بچوں کے کھیل سے تشبیہ دے رہے ہیں اور پورے ملک میں طالبان کا کنٹرول مسلسل بڑھ رہا ہے۔واضح رہے کہ کہ دوحا معاہدے کے مطابق غیر ملکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان چھوڑنا تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ نے طالبان سے انخلاء میں 6ماہ تک توسیع کا کہا تھا جس پر طالبان نے حامی نہیں بھری تھی۔ بہرحال بائیڈن حکومت کی جانب سے حالیہ اور حتمی کے اعلان کے بعد طالبان نے کہا ہے کہ جب تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نہیں جاتیں تب تک افغان حکومت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو چند ماہ قبل ایک خط لکھا تھا جو کہ بعد میں لیک ہو کر میڈیا میں گردش کرتا رہا جس میں اشرف غنی کو امن معاہدے پر عمل درآمد میں جلدی کرنے کیلئے خبردار کیا گیا تھا، خط میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد طالبان پیش قدمی کریں گے اور امن و امان کے حالات خراب ہوں گے۔ اسی تناظر میں اشرف غنی پہلے ہی اقرار کر چکے ہیں کہ اگر افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو 6ماہ تک بیرونی امداد نہ ملی تو ان کی سکیورٹی فورسز بکھر جائیں گی۔ایک قیاس آرائی جو کہ اب سچ کا روپ دھارتی دکھائی دے رہی ہے کہ مستقبل کے افغانستان میں طالبان کا اہم کردار ہوگا۔اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو افغانستان میں طالبان کے حکومت کا حصہ بننے کی صورت میں افغانستان کے اندر پاکستان مخالف قوتوں باالخصوص یہاں ہندوستان کو پاکستان کے خلاف کام کرنے کیلئے حالات میسر نہیں رہ پائیں گے جس سے پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی کی صورتحال کو مذید مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب بھارت کو بھی افغانستان میں اپنی حیثیت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاء پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن درحقیقت انڈیا کے تحفظات کی اس معاملے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔تصویر کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف موجودہ صورتحال میں پاکستان کیلئے مثبت آثار نظر آرہے ہیں وہاں مستقبل کے افغانستان میں پاکستان کیلئے متعدد چیلنجز بھی درپیش ہوں گے، مثال کے طور پر اگر افغانستان میں انتشار بڑھتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان پر ہی پڑے گا کیونکہ افغانستان سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین پاکستان کا رُخ کرسکتے ہیں، پاکستان چونکہ پہلے ہی معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے اس لیے پاکستان کو افغانستان سے ممکنہ ہجرت کرنیوالے مہاجرین کی لہر کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا، ایک قیاس یہ بھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بھی شروع ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو اس حوالے سے مربوط منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ مستقبل کے افغانستان سے جنم لینے والے چیلنجز کے ساتھ کامیابی سے نمٹا جائے اور پاکستان کو اس کے تباہ کُن اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ افغانستان کے حالات سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا رہا ہے وہاں کی بدامنی ہمارے شہروں تک پھیل گئی تھی جس پر انتہائی زیادہ قربانیاں دے کر قابو پایا گیا ہے اس لئے اب ضروری ہے کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے اور اگر افغانستان میں امن قائم ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور وہاں کی بدامنی سے دامن کو بچایا جائے۔