کورونا وبا کی جاری تیسری لہر میں صرف بیماری کا شکار ہونے والے ہی زندگی کے ایک مشکل دور سے نہیں گزر رہے بلکہ بالعموم معمولات زندگی اور بالخصوص ’تعلیم کا سلسلہ‘ متاثر ہونے کی وجہ سے خاص و عام کی اکثریت غیریقینی سے دوچار ہے اور ایک خاص پریشانی عام ہے کہ جو شعور اور لاشعور پر حاوی ہے۔ مارچ دوہزاربیس سے جاری وبائی صورتحال کی وجہ سے صرف درسی و تدریسی سرگرمیاں ہی متاثر نہیں ہو رہیں بلکہ طلبہ کی شخصیت سازی‘ نفسیاتی تربیت کے مراحل اور نظم و ضبط کے سلسلے بھی منقطع ہیں اور اِس تعطل کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران ’آن لائن وسائل (انٹرنیٹ‘ موبائل فونز اور کمپیوٹرز کے استعمال)‘ سے پوری کرنا ممکن نہیں۔ اُمید ہے کہ تازہ ترین تعلیمی تعطل عیدالفطر کے فوراً بعد یعنی آئندہ ماہ (مئی کے وسط) تک ختم ہو جائے گا تاہم اِس پورے منظرنامے کے چند ایسے پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں حکومتی فیصلہ سازی‘ تعلیمی اداروں کی انتظامی سطح اور صارفین زیادہ غوروخوض نہیں کر رہے چونکہ کورونا عالمی وبا پہلی اور آخری نہیں اور تاحال اِس سے بچاؤ کی ادویات بھی انسانوں پر تجربات کے مراحل سے گزر رہی ہیں‘ اِس لئے ضروری ہے کہ ذہنی و عملی طور پر اِس بات کیلئے تیار (آمادہ) رہنا چاہئے کہ کورونا وبا سے چھٹکارہ تو ممکن نہیں لیکن اِس کے مؤثر علاج اور وبا سے محفوظ رہنے کی حکمت عملی (سماجی فاصلہ برقرار رکھنے‘ بھیڑبھاڑ والے مقامات پر جانے سے گریز اور ماسک کے لازم استعمال) ضرور معلوم ہے جسے خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ ضرورت والدین کے تحفظات کو بھروسے‘ طلبہ کی عدم دلچسپی کو دلچسپی اور تدریسی عملے کی مجبوری و بے بسی کو اِس یقین سے تبدیل کر دیا جائے کہ اُن کی اہمیت و کردار پہلے سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔علوم و فنون کی ترقی یافتہ اشکال پر مبنی ’جدید دنیا کے تصورات‘ میں کسی ملک کی اقتصادی صورتحال اور ترقی کے بارے میں رائے وہاں کے نظام تعلیم کی شرح نمو کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جاتا ہے۔ اِس عالمی منظرنامے میں پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ قومی آمدن و اخراجات کے تخمینہ جات (بجٹ) میں تعلیم کیلئے بمشکل دو سے تین فیصد مالی وسائل مختص کرنے کا عمل 2009ء سے ایک جیسا ہے اور اگر اِس عرصے کے دوران قومی ترقی (شرح نمو) دیکھی جائے تو وہ چھ فیصد سے منفی کے درمیان رہی ہے۔ اِس قابل فہم مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح تعلیم میں سرمایہ کاری سے قومی ترقی اور شرح نمو میں اضافہ لیکن تعلیم میں سرمایہ کاری سے گریز کرنے کی وجہ سے قومی اقتصادی ترقی میں گراوٹ آتی ہے۔ قومی سطح پر شعبہئ تعلیم کیلئے سالانہ مختص مالی وسائل 304 ارب روپے سے بڑھا کر 980 ارب روپے کر دیئے گئے ہیں لیکن اِن مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ غیرترقیاتی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے اور کل مختص رقم کا دو سے تین فیصد ہی تعلیمی شعبے کی توسیع پر خرچ ہوتا ہے جو عالمی معیار (بجٹ کے دس سے پندرہ فیصد سالانہ) سے کم ہونے کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی کافی نہیں۔ علاوہ ازیں ہر سال تعلیم کیلئے مختص مالی وسائل کا 2 سے 3 فیصد حصہ استعمال نہیں ہوتا۔ خیبرپختونخوا کی بات کریں تو 43فیصد تعلیمی بجٹ استعمال ہونے سے رہ جاتا ہے جس کی الگ سے انتظامی وجوہات ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ ہی ضروری نہیں بلکہ اُس انتظامی بندوبست کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس کی موجودگی میں شعبہئ تعلیم کی توسیع ممکن نہیں ہو پا رہی۔ انسانی ترقی کی عالمی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شعبہئ تعلیم میں سرمایہ کاری اور کارکردگی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے اِسے مزید 60 سال لگیں گے کہ یہاں ہر بچہ سکول جائے۔ مذکورہ رپورٹ میں ذکر کی گئی یہ بات بھی اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں 81 فیصد نجی تعلیمی ادارے ’پرائمری سطح‘ کے ہیں جبکہ مڈل اور ہائی سکولوں کی شدید کمی ہے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ تعلیمی بندوبست معیار کے لحاظ سے عوام کی اکثریت کیلئے قابل قبول نہیں۔ کورونا وبا نے شعبہئ تعلیم کی خامیوں کو عیاں کیا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور جیسی تیسی (غیرمعیاری) آن لائن تعلیم کے جاری سلسلے میں بچوں کو امتحانی نتائج ماہانہ فیسوں کی ادائیگی سے مشروط کر دیئے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت کے متعلقہ فیصلہ ساز تجاہل عارفانہ اختیار کئے ہوئے ہیں پوری صورتحال کو جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔