مسئلے کی نشاندہی۔۔۔۔۔

بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی غیرسرکاری تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ 2020کے دوران پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 2960 واقعات رپورٹ ہوئے۔جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں میں 1510بچیاں جبکہ 1450 بچے شامل ہیں‘ مختلف علاقوں میں سات بچیوں کو ونی کیا گیا، مختلف واقعات میں بچوں کو ہسپتال،ہوٹل، گاڑیوں، کلینک، کالج، فیکٹری، جیل، پولیس سٹیشن، شادی ہال، قبرستان اور دیگر کئی مقامات پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بچوں پر جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے جنکی تعداد 1707 رہی۔ سندھ میں 861، بلوچستان میں 53، اسلام آباد میں 102، خیبر پختون خوا میں 215، آزاد کشمیر میں 18 اور گلگت بلتستان میں چار بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں روزانہ 8 بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات رونما ہورہے ہیں غیر سرکاری تنظیم نے جنسی تشدد کے واقعات کی روک تھام کیلئے مفت قانونی معاونت، ہر ضلع میں چائلڈ سیفٹی سیل بنانے، آگاہی مہم چلانے،بچوں سے متعلق نئے قوانین وضع کرنے اور مروجہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی تجاویز پیش کی ہیں۔غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے وہ مختلف پولیس سٹیشنوں سے اکٹھی کی گئی رپورٹ کی بنیاد پرہے۔ بہت سے واقعات کی رپورٹ پولیس تک نہیں پہنچتی۔ اکثر بچے مار پڑنے یا مارے جانے کے خوف سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کسی کو نہیں بتاتے۔ زیادہ تر والدین بد نامی کے خوف سے واقعات پر پردہ ڈالتے ہیں۔ خصوصاً بچیوں کے حوالے سے والدین بہت محتاط ہوتے ہیں کیونکہ بات پھیل جانے سے بچیوں کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اگر رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کو بھی گنا جائے تو بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی تعداد چار سے پانچ گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین بھی موجود ہیں اور خصوصی عدالتیں بھی قائم ہیں۔ مگر ان قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔۔ اگر کوئی مجرم پکڑا بھی جائے تو تفتیشی نظام میں جھول کی وجہ سے ملزم عدالتوں سے چھوٹ جاتا ہے یا متاثرہ خاندان کے ساتھ صلح کرکے واقعے پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔۔ ان واقعات سے ملک و قوم کی بدنامی ہورہی ہے۔ سخت قوانین وضع کرنے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ساتھ معاشرے کو بھی اس ہولناک جرم کی روک تھام کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ جب تک ایسا ماحول تشکیل نہیں دیا جاتا جہاں ہر ایک فرد دوسرے کی عزت و مال وجان کو اہمیت دے اور جو اپنے لئے پسند نہ کرے وہ سلوک کسی اور کے ساتھ بھی نہ کرے تو مسائل ختم نہیں ہوں گے اور دیکھا جائے تویہی دین کا تقاضا بھی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی مال و جان کا محافظ ہے نہ اسے خود نقصان پہنچائے گا اور نہ نقصان پہنچنے دیگا۔جبکہ معاشرے میں یہ رویہ ناپید ہے اور نفسا نفسی کا دور ہے اگر کسی کو مسئلہ ہے اور اس کے آس پاس موجود اس مسئلے سے تب تک لاتعلق رہتے ہیں جب تک وہ براہ راست خود متاثر نہ ہوں ہمارے اسی رویئے کی عکاسی ان وباء کے دنوں میں بھی ہو رہی ہے کہ جو متاثر ہوا وہی اس بیماری کی شدت کا احساس کرسکتا ہے باقی لوگ ایسے لاتعلق رہتے ہیں جیسے یہ وباء کسی اور جگہ پر ہے اب اگر معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے مشترکہ جدوجہد اور مل کر مسائل کو ختم کرنے کا جذبہ ناپید ہے تو اس جذبے کو کون بیدار کرے گا یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور خاص کراس حوالے سے علمائے کرام، اساتذہ، میڈیا، دانشوروں اور اہل قلم پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔کہ وہ اپنے ذہن، زبان اور قلم کو اس جہاد کیلئے استعمال کرکے معماران قوم بننے کا حق ادا کریں۔