پشاور کہانی: کتب خانے۔۔۔

اقوام متحدہ تنظیم کے 193 رکن ممالک 1995ء سے ہر سال ’23 اپریل‘ بطور ’کتابوں کا عالمی دن (World Book Day)‘ مناتے ہیں۔ یہ دن اسپین سے تعلق رکھنے والے مصنف وائسنٹے کلود اینڈرس (Vicente Clavel Andres) کی علمی ادبی خدمات کی یاد آوری اور اُن کے ذریعے دنیا بھر کے لکھاریوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے منایا جاتا ہے جبکہ اِس خصوصی دن کے منانے کا ایک مقصد ’کتاب کی اہمیت اُجاگر کرنا‘ اور ’کتاب کی جانب اُن معاشروں کی توجہ مبذول کروانا ہے جو علم و خواندگی‘ تعمیر و ترقی‘ سماجی بہبود اور عوامی شعور جیسی خوبیاں حاصل کرنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اُن کے کتاب کو خاطرخواہ اہمیت (مرکزی کردار) حاصل نہیں۔ اقوام متحدہ کتابوں کا عالمی دن اور عالمی ’کاپی رائٹ‘ دن (Copyright Day) ایک ہی دن مناتی ہے‘ جو مصنفین اور اشاعتی مراکز کے مالی و کاروباری حقوق کا تحفظ کرنے سے متعلق ہے اور اِس میں کسی کتاب میں شائع ہونے والے تحقیقی یا غیر تحقیقی (ہر قسم کے) مواد کے حقوق بحق مصنف و ناشر محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات و عالمی قواعد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہر سال دنیا کے کسی ایک شہر کو ’کتاب کا عالمی دارالحکومت (World Book Capital) قرار دیا جاتا ہے اور سال 2021ء کیلئے جارجیا (Georgia) کے شہر تلبسی (Tbilisi) کتابوں کا عالمی دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ ورلڈ بک ڈے کا پیغام بھی اِس دن کی طرح اہم اور خاص جو کتب بینی کی جانب توجہ دلاتا ہے کہ ”اچھا‘ تو آپ اگلی کتاب کونسی پڑھیں گے؟ (OK. So your next book is...?)‘ دوسری مرتبہ ہے کہ کتابوں کا عالمی دن کورونا وبا سے پیدا ہونے والی عالمی صورتحال میں منایا جا رہا ہے کہ تعلیمی ادارے بند ہیں اور لوگوں کا زیادہ تر وقت گھروں یا کام کاج کی جگہوں (چاردیواریوں کے اندر) گزرتا ہے تو ایسی صورت میں کتب بینی مثبت مشغلہ ہے اور اِس سے نہ صرف تخلیقی قوت اور سوچ پروان چڑھتی ہے بلکہ ذہن منفی خیالات اور تفکرات سے بھی آزاد ہو جاتا ہے۔ ممالک کی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر (تیسری دنیا) میں تقسیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کتاب پڑھنے کا رجحان زیادہ ہے اور وہاں کتاب کا متبادل بھی کتاب (آن لائن لائبریریز) ہی ہیں۔
جب ہم کتاب کی بات کرتے ہیں تو اِس سے عمومی مراد ’نصابی کتب‘ لیا جاتا ہے جو کتاب کا ایک محدود تصور ہے اور اِسی محدود تصور نے فکروعمل کو بھی محدود کر دیا ہے۔ طالب علم جب درس و تدریس کے ابتدائی مراحل‘ اپنے گردوپیش‘ بالخصوص اپنے اساتذہ‘ والدین اور بہن بھائیوں یا رشتے داروں کے ہاتھوں میں کتاب نہیں دیکھتا تو اُس کا کتاب سے تعارف و تعلق (تعلیمی عمل کے آغاز سے) محدود رہتا ہے جبکہ مغربی معاشروں میں بچے کو ماں کی گود میں کھلونوں کے ساتھ نرم کپڑے سے بنی ہوئی کتاب دی جاتی ہے اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کتاب سے اُس کے تعلق کو مضبوط بنایا جاتا ہے اور یوں کتاب اجنبی نہیں رہتی اور نہ ہی نمائشی طور پر گھروں میں سجائی جاتی ہے بلکہ یہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ایک عرصے تک روایت رہی کہ صرف تعلیمی اداروں ہی میں نہیں بلکہ ہر سرکاری ادارے میں بھی کتب خانہ بنایا جاتا تھا جبکہ کئی ایسے سرکاری ادارے (جیسا کہ بلدیہ پشاور) میں قائم کتب خانے سے ملازمین کے علاوہ عام شہری بھی استفادہ کرتے تھے اور انہیں کتب خانے کی باقاعدہ رکنیت دی جاتی تھی لیکن ایسے کتب خانے غیرآباد ہوئے‘ گم ہوئے اور اب پشاور کی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ بلدیہ پشاور کے کتب خانے کو گورگٹھڑی شادی ہال سے متصل عمارت میں منتقل کیا گیا تھا لیکن جب پشاور ہائی کورٹ نے مذکورہ شادی ہال کو تجاوزات قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم دیا تو اِس کی زد میں کتب خانہ بھی آ گیا اور راتوں رات شادی ہال کی عمارت مسمار کر دی گئی جبکہ کتابوں کو بوریوں میں بند کر کے شاہی باغ کے احاطے میں ایک ایسے کمرے میں منتقل کر دیا گیا جو باغبانوں کے زیراستعمال تھا۔ اُن ہزاروں قیمتی کتابوں کا کیا بنا کبھی کسی نے سوال نہیں اُٹھایا۔ اصولاً اگر اندرون شہر کے واحد کتب خانے کو ختم کرنا ہی تھا تو کتابوں کو شمار کر کے مرکزی لائبریری کے حوالے کر دیا جاتا اور کتب خانے کو خالی کرنے کا وقت دیا جاتا تاکہ کتابیں ضائع اور گم نہ ہوتیں پشاور کی وہ سبھی خوبیاں جو کبھی اِس شہر کی علم دوستی کا اظہار و بیان ہوا کرتی تھیں اگر ایک ایک کر کے دم توڑ گئی ہیں تو اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور کا حال اِس کے ماضی سے متصل نہیں رہا اور پشاور کے ماضی کو ایک غیرضروری باب سمجھتے ہوئے بند کر دیا گیا ہے! سہانے دن تھے جب پشاور میں غیرملکی ثقافتی مراکز آباد ہوا کرتے ہیں‘ جہاں زبان و ثقافت کے بارے میں جاننے کے علاوہ کتب بینی کیلئے اہل ذوق جمع ہوا کرتے تھے۔ پشاور میں برطانیہ‘ امریکہ اور فرانس کے کتب خانوں کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پہلے بند اور بعدازاں انہیں ختم کر دیا گیا تو صوبائی حکومت کو اِس کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ فی الوقت جمہوری اسلامی ایران کے ثقافتی مرکز میں کتب خانہ موجود ہے جہاں کتابوں کی نمائشوں کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے اور تشنگان علم جن میں اکثریت فارسی زبان تحصیل کرنے والے طلبہ و طالبات کی اکثریت ہوتی ہیں یہاں کے کتب اور وسائل سے استفادہ کرتے ہیں لیکن اِس کتب خانے کو بھی خاطرخواہ وسعت نہیں دی گئی بلکہ یہ جیسا ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر قائم (موجود) ہے۔ پشاور میں کتاب سے رشتہ ماضی سے زیادہ کمزور دکھائی دیتا ہے جو کہیں ٹوٹ تو کہیں پھوٹ چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ کتاب کا عالمی دن اُن گمشدہ اور گم کردہ کتابوں پر پڑی گرد کو جھاڑنے کیلئے وقف کیا جائے کیونکہ کتاب ضرورت ہے اور کتاب دوستی پشاور کی پہچان (حوالہ) ہے۔