مکمل لاک ڈاؤن کے خدشات۔۔۔

وفاقی حکومت نے ملک میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے پاک فوج کی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میں نے فوج کو کہا ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے  سڑکوں پر آئے، ہم اب تک لوگوں کو ایس او پیز پر چلنے کا کہتے رہے ہیں لیکن لوگوں میں کوئی خوف نہیں اور کوئی احتیاط نہیں کررہے،، کورونا سے بچنے کیلئے سب سے بڑی احتیاط ماسک کا استعمال ہے، اس سے آدھا مسئلہ حل ہوجاتا ہے، عوام اگر احتیاط کریں تو وباء رک سکتی ہے، جب تک قوم مل کر مقابلہ نہیں کرے گی تو وبا سے نہیں جیت سکتے۔ اگر عید تک عوام نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو ہمیں بھی بھارت کی طرح سخت فیصلے کرنے پڑیں گے کورونا کو روکنے کیلئے شہروں کو بند کرنا ہو گا۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کر دیں لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ غریب مزدور، دیہاڑی دار اور روز کما کر کھانے والے متاثر ہوں گے۔ماہ رمضان میں مساجد کھلی رکھی گئیں اور علماء کی کوششوں سے مساجد میں ایس او پیز پرکچھ نہ کچھ عملدرآمد ہورہا ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن ہوگا تو معیشت کو نقصان پہنچے گا‘ دکانداروں اور فیکٹری والوں کو نقصان ہو گا اور سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کا ہو گا پاکستان میں کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران لوگوں نے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں لیکن جب سے تیسری لہر آئی ہے لوگوں نے بھی احتیاط کا دامن چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 30فیصد، مردان اور سوات  میں 33فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ہماری لاپراہی اور غفلت کا یہی حال رہا تو خدا نخواستہ بھارت جیسے حالات یہاں بھی پیدا ہوسکتے ہیں ہمارے پڑوسی ملک میں کورونا سے اموات کی تازہ ترین وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ سڑکوں پر چلتے چلتے گر رہے ہیں شاہراہوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں ان کو اٹھانے والا بھی کوئی نہیں۔ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں۔کورونا کا موثر علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ وائرس سے بچاؤ کی جو ویکسین لگائی جارہی ہے وہ اس موذی مرض کا موثر اور قابل اعتماد علاج نہیں۔ صرف ویکسین لگانے سے کورونا وباء سے نہیں بچا جاسکتا۔ اس کے ساتھ ماسک کا استعمال، صابن سے بار بار ہاتھ دھونا، سینی ٹائزر کا استعمال اور سماجی فاصلوں سے متعلق ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے یہ مرض دو سے تین مرتبہ بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔کورونا کی تیسری لہر اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ اس میں تیز بخار، گلے میں درد، منہ کا ذائقہ ختم ہونا اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ یہ وائرس براہ راست پھیپھڑوں میں پہنچ کر انہیں چھلنی کرتا ہے اور مصنوعی آکسیجن سے بھی مریض کی جان نہیں بچائی جاسکتی۔ خیبر پختونخوا میں اب تک 62ڈاکٹر اس مہلک مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ہماری لاپراہی کا یہ عالم ہے کہ بازاروں میں لوگ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں۔ بسوں اور ویگنوں میں مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جارہا ہے‘ مادیت پرستی کا بھوت سب پر سوار ہے ایک نفسا نفسی کا عالم ہے کسی کو دوسرے کی جان کی پروا نہیں‘ایس او پیز پر عمل درآمد کی حکومت، ڈاکٹروں، دانشوروں اور علمائے کرام کی اپیلیں کوئی سننے کو تیار نہیں۔ اس صورت حال میں حکومت نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے لئے فوج کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آثار یہی نظر آرہے ہیں کہ ملک مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جارہا ہے۔