پاکستان میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی سے متعلق حکومتی فیصلہ سازوں کی ترجیحات اور عوامی رویئے انتہائی بنیادی شکل میں ہیں۔ دونوں فریقین (حکومت اور صارفین) کو مستقبل کی ضروریات کا خاطرخواہ حساس نہیں۔ یہ نتیجہئ خیال حال اُس سالانہ تحقیق سے معلوم ہے جو رواں ہفتے جاری ہوئی ہے اور اِس میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نامی ملکی تنظیم نے عالمی انٹرنیٹ رینکنگ میں حصہ ڈالتے ہوئے پاکستان کی صورتحال دنیا کے سامنے رکھی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں فائیو جی (5G) انٹرنیٹ کا استعمال شروع ہو چکا ہے جبکہ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں ٹو جی‘ تھری جی اور فور جی فراہم و استعمال کرنے والے ٹیکنالوجی کی طرف راغب نہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ کئی برس کی طرح رواں سال کے لئے بھی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی درجہ بندی میں تنزلی ہوئی ہے جو لائق توجہ اور باعث تفکر ہونا چاہئے۔ یہ تنزلی اِس لئے بھی غیرمعمولی ہے کیونکہ جب انٹرنیٹ کے معیار و ٹیکنالوجی پر اعتماد (بھروسہ) کی بات آتی ہے تو پاکستان جنوب ایشیائی ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے جبکہ براعظم ایشیا میں کم ترین سطح سے صرف ایک درجہ بلند نظر آتا ہے! اِس سلسلے میں الگ الگ زاوئیوں سے کسی ملک کی صورتحال کو فہرست کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ انٹرنیٹ کی فراہمی اور معیار کے حوالے سے کیا جائے تو شمار 97ویں ملک میں ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کی قیمت کے لحاظ سے پاکستان 67ویں نمبر پر ہے۔ مقامی زبانوں میں انٹرنیٹ کے تراجم اور فراہمی کے پیمانے پر پاکستان کی درجہ بندی 91ویں نمبر پر جبکہ انٹرنیٹ کے بارے میں عوام کے رویئے اور اِس سے استفادہ کرنے کے لحاظ سے درجہ بندی میں پاکستان 79ویں نمبر پر ہے۔
عالمی انٹرنیٹ رینکنگ (نتیجہئ خیال) سوفیصد درست نہیں تو یہ سوفیصد غلط قرار دیکر ردّی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جا سکتا۔ سائنسی بنیادوں پر کئے گئے جائزے اور بیشتر اُنہی اعدادوشمار سے اخذ کئے گئے جو وقتاً فوقتاً حکومت جاری کرتی ہے یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت یا متعلقہ اداروں کے فیصلہ ساز بات چیت میں بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے عالمی پیمانہ چار اصولوں پر مبنی ہے۔ 1: کسی ملک میں انٹرنیٹ کس قدر عام دستیاب ہے اور اُس کا معیار کیسا ہے یعنی اگر کوئی صارف کسی خاص رفتار سے انٹرنیٹ حاصل کرتا ہے تو کیا اُسے انٹرنیٹ اُسی رفتار سے ملتا ہے؟ اِس سلسلے میں پاکستان کی حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ برق رفتار انٹرنیٹ تو بہت دور کی بات بڑے شہروں اور شہری علاقوں میں انٹرنیٹ کی رفتار قابل بھروسہ نہیں ہوتی اور اِس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ 2: عالمی درجہ بندی کا دوسرا پیمانہ عام آدمی کی قوت خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے انٹرنیٹ کی قیمت کو دیکھا جاتا ہے۔ کورونا وبا کے سبب معاشی سرگرمیاں سست ہونے اور تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد انٹرنیٹ سے استفادے میں اضافہ ہوا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک نے انٹرنیٹ کی قیمت میں کمی کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال ملازمتوں کی تلاش‘ آن لائن ملازمتوں اور آن لائن درس و تدریس کے لئے کریں۔ کون جانتا تھا کہ انٹرنیٹ کی اہمیت و ضرورت میں اچانک اِس قدر اضافہ ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے براڈبینڈ(ڈی ایس ایل) انٹرنیٹ کو ملک کے کونے کونے میں پہنچانے کاعمل نہایت ہی سست رفتار سے جاری رکھا جبکہ ضرورت اِس میں تیزی لانے کی تھی۔ اِس سلسلے میں موبائل فون کمپنیوں (نجی سرمایہ کاروں) نے ’ڈیٹا کنکشن‘ کی صورت انٹرنیٹ کی فراہمی کو کسی نہ کسی صورت دور دراز علاقوں میں جاری رکھا ہوا ہے لیکن اِس کا معیار و رفتار اِس قدر نہیں کہ اِس پر طلبہ اور آن لائن ملازمتیں کرنے والے بھروسہ و انحصار کر سکیں۔ 3: انٹرنیٹ کی مادری زبان انگریزی ہے جسے ملک کی مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے پیش کرنے کے منصوبے بھی حکومت کی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ دنیا سکڑ کر اگر ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے تو اِس گلوبل ویلیج میں ابلاغ کا ذریعہ صرف انگریزی ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کے ہاں انٹرنیٹ سے مقامی مادری زبانوں میں استفادہ کرنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جو پاکستان میں نہایت ہی محدود پیمانے پر ہے اور زیادہ تر نجی شعبے کی دلچسپی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ عالمی درجہ بندی کے ذریعے پاکستانی فیصلہ سازوں کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی گئی ہے کہ جامعات میں تحقیق سے لیکر اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں انٹرنیٹ کی توسیع و معیار کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ مستقبل میں طرزحکمرانی سے لیکر معاشی سرگرمیوں (معمولات زندگی) تک سب کچھ ’آن لائن‘ ہوگا۔ 4: انٹرنیٹ کارآمد ہے لیکن اِس سے استفادہ کرنے کیلئے شرح خواندگی بھی بلند ہونا چاہئے اور یہ بات بھی ضروری نہیں کہ خواندہ ہونے کے باوجود بھی کوئی شخص انٹرنیٹ استعمال کر سکے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ انٹرنیٹ کو نئی نسل کا شوشا قرار دیکر استعمال نہیں کیا جاتا جبکہ انٹرنیٹ و ٹیکنالوجی سے کنارہ کشی کی بنیادی وجہ تکنیکی خواندگی میں کمی اور عدم برداشت پر مبنی ثقافتی روئیے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2020ء میں پاکستان 89ویں جبکہ 2021ء میں 90ویں نمبر پر آیا ہے۔ اِس درجہ بندی کے تحقیق کے وسائل معروف جریدے ’اکنامسٹ‘ نے جبکہ مالی وسائل ’فیس بک‘ کی جانب فراہم کئے گئے اور تین معروف عالمی اداروں کے اشتراک عمل سے مرتب ہونے والی عالمی درجہ بندی کو تحقیق و حقائق پر مبنی (مستند) قرار دیا جا سکتا ہے۔(انٹرنیٹ کی عالمی درجہ بندی میں صرف پاکستان ہی سے متعلق اعدادوشمار دلچسپ نہیں بلکہ کئی دیگر ممالک کو بھی پاکستان سے کم یا زیادہ ایک جیسی مشکل درپیش ہے۔ اِس بارے میں تفصیلات جاننے کیلئے بالخصوص طلبا و طالبات کو ’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے ’ٹوئیٹر اکاؤنٹ (DigitalRightsPK)‘ پر موجود ویڈیو اور دیگر مواد کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنا چاہئے۔ انٹرنیٹ کی فراہمی‘ اِس کے معیار و آزادی اور ٹیکنالوجی سے متعلق شرح خواندگی میں اضافہ اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک عوام کی جانب سے اِس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے فیصلہ سازوں پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ انٹرنیٹ آزادیئ اظہار کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے جمہوریت کی مضبوطی اور حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے کا وسیلہ بھی ہے‘ جسے اکثر غلط معلومات و اطلاعات کے ذریعے آلودگی پھیلانے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سارے اور اِن جیسے دیگر ضمنی موضوعات توجہ طلب ہیں‘ جن کے بارے میں معاشرے اور ذرائع ابلاغ میں ہر سطح پر بات چیت (بحث ومباحثہ) ہونا چاہئے۔