60 فٹ کی دوری بھی ناکافی؟ نئی تحقیق

میساچوسٹس: امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق نے سماجی دوری (سوشل ڈسٹنسنگ) کی پالیسیوں کو چیلنج کر دیا ہے، محققین نے کہا ہے کہ چار دیواری کے اندر 60 فٹ کی دوری بھی آپ کو کرونا وائرس سے نہیں بچا سکتی۔

یہ تحقیق میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں کی گئی، جس کے نتائج طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چار دیواری کے اندر کرونا کے شکار ہونے کا خطرہ 60 فٹ کی دوری سے بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا 6 فٹ کی دوری سے، چاہے فیس ماسک ہی کیوں نہ پہن رکھا ہو۔

ریسرچ میں یہ دیکھا گیا تھا کہ چار دیواری کے اندر سماجی دوری کو وِڈ 19 سے بچاؤ کے لیے کس حد تک مؤثر ہے، اس کے لیے ایم آئی ٹی کے کیمیکل انجنیئرنگ اور اپلائیڈ میتھ میٹکس کے پروفیسرز مارٹن بازنٹ اور جان ایم ڈبلیو بش نے خطرے کو ماپنے کا ایک میتھڈ تیار کیا۔

اس میتھڈ میں ایسے عناصر کی نشان دہی کی گئی جو وائرس کے پھیلاؤ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، ان میں چار دیواری کے اندر گزارے جانے والے وقت، ایئر فلٹریشن اور بہاؤ، امیونائزیشن، وائرس کی اقسام، ماسک کا استعمال اور حتیٰ کہ سانس لینے، کھانا کھانے اور باتیں کرنے جیسے عناصر کو مد نظر رکھا گیا۔

تحقیق میں شامل ماہرین نے سی ڈی سی اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کو وِڈ 19 گائیڈ لائنز پر بھی سوالات اٹھائے، ان کا کہنا تھا ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں کہ 6 فٹ کی دوری کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں، جب کہ لوگوں نے فیس ماسک بھی پہنے ہوئے ہوں، کیوں کہ ماسک پہنے ہوئے بھی سانس لینے سے ہوا اوپر کی جانب نکل کر کمرے میں نیچے چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دور بیٹھے فرد میں بھی وائرس کا خطرہ بڑھتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ جتنا کوئی فرد کسی چار دیواری میں متاثرہ شخص کے ساتھ وقت گزارے گا، وائرس کے پھیلاؤ کا امکان اتنا زیادہ ہوگا، کمرے میں کھڑکی کھولنا یا ہوا کے بہاؤ کے لیے نئے پنکھے لگانا بھی کسی نئے فلٹریشن سسٹم پر بہت زیادہ خرچے جتنا ہی مؤثر ہو سکتا ہے، اس لیے سی ڈی سی اور عالمی ادارہ صحت کو چار دیواری کے اندر گزارے ہوئے وقت کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔

محققین نے کہا کہ کسی کمرے میں 20 افراد کا ایک منٹ تک رہنا تو ممکنہ طور پر خطرناک نہیں مگر کئی گھنٹوں تک ان کو وہاں نہیں رہنا چاہیے، انھوں نے کہا ہوا کے اخراج کے مناسب نظام کے ساتھ بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے، اور اس طرح بند دفاتر اور اسکولوں کو بھی کھولا جا سکتا ہے۔