پشاور کی ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) نے نئے مالی سال 2021-22ء کے دوران جن تین بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تجویز پیش کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے آٹھ کروڑ تیس لاکھ روپے طلب کئے ہیں اُن میں جنرل بس اسٹینڈ کی اراضی پر کاروباری مشاورتی سرگرمیوں کے قیام‘ جنرل (پبلک) ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) کی اراضی سے ’ہائی سٹریٹ‘ نامی منصوبے کیلئے استفادہ اور ’ہیرٹیج ٹریل (ثقافتی راہداری)‘ کی بحالی (تعمیرومرمت) شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اِن تینوں منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور اِن سے متعلق مشاورتی عمل (consultancy) کیلئے آٹھ کروڑ روپے سے زائد جیسی خطیر رقم درکار ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہ رقم مذکورہ تینوں منصوبوں کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے ناکافی ہے اور اِن آٹھ کروڑ روپے سے مشیروں‘ مشاورتی اجلاسوں پر اُٹھنے والے تفریحی اخراجات اور پلندوں کی صورت دستاویزات (فائل ورک) (نشستن‘ خوردن‘ برخاستن) سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔’ہیرٹیج ٹریل (Heritage Trail)‘ منصوبہ تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت (2013ء سے 2018ء) کی یادگار ہے۔ 2017ء میں شروع کئے گئے اِس منصوبے کا تصور 2 سال قبل پیش کیا گیا تاہم مالی وسائل مختص نہ ہونے کی وجہ سے تاخیرہوتی رہی اور بالآخر یہ منصوبہ 2018ء میں مکمل ہوا جس پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 30 کروڑ (301.5 ملین) روپے لگایا گیا اُور اِس میں 75 قدیمی عمارتیں یا ڈھانچوں کو اُن کی اصل حالت میں بحال کرنا تھا تاہم منصوبے کی تکمیل تک لاگت 50 کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی تھی اور اگر اِس منصوبے کے کام کاج کی نگرانی کرنے والے مختلف حکومتی محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات کو بھی شمار کیا جائے تو نصف کلومیٹر راہداری پر 100 کروڑ (ایک ارب) روپے خرچ کئے گئے لیکن اس کے بعد خاطرخواہ حفاظت نہیں کی گئی ثقافت اور آثار قدیمہ اگرچہ ’بھرے ہوئے پیٹ کی باتیں‘ ہیں لیکن سیاحتی ترقی ایک ایسا شوشا ہے‘ جس کا ہمیشہ سے سہارا لیا جاتا ہے۔ کیا کورونا وبا کی عالم میں سیاح پشاور یا پاکستان آ رہے ہیں؟پشاور کے دیدنی مقامات میں ’گورگٹھڑی‘ سرفہرست ہے‘ جس کی بحالی کا عمل سست روی لیکن مستقل مزاجی سے جاری ہے لیکن حکومتی اداروں کے کام کاج مربوط نہ ہونے کی وجہ سے اِس تاریخی مقام سے بھی خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو پا رہا۔ اگر چاردیواری کے اندر صرف گورگٹھڑی ہی کو محفوظ کر لیا جائے تو پشاور کی تاریخ کا 80 فیصد منظرنامہ محفوظ ہو جائے گا۔ بہرحال پشاور شناسی اپنی جگہ ضروری ہے کیونکہ اہل پشاور کی نہایت قلیل تعداد کو اِن حقائق کا علم ہوگا کہ گورگٹھڑی (ایک مربع کلومیٹر کی عمارت) کے احاطے میں مختلف ادورا کے دوران تین مقامات پر کھدائیاں کی گئیں اور آخری کھدائی جس میں آثار قدیمہ کے ملکی و غیرملکی ماہرین نے زمین کی 13 تہیں (پرتیں) چھاننے اور حاصل ہونے والے نوادرات کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہئ خیال پیش کیا کہ پشاور 200 قبل مسیح بھی آباد تھا جبکہ بدھ مت کی تبلیغات (ترویج و اشاعت) کا آغاز اِسی خطے سے ہوا جو پتھر کے دور سے شروع ہونے والی انسانی تاریخ کی ایک طویل ترین ’گندھارا تہذیب‘ کا حصہ رہی ہے لیکن پشاور صرف گندھارا تہذیب اور بدھ مت (مذہبی سیاحت) ہی کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہاں سولہویں صدی کے مغلیہ آثار اور فن تعمیر بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اَلغرض پشاور بیک وقت مختلف اقسام کی سیاحت میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے جنت نظیر ہے اور یہاں ہر قسم کی دلچسپی رکھنے والوں کی تسکین کا سامان موجود ہے۔ برطانوی راج کے دوران (1912ء) میں قائم ہونے والے فائربریگیڈ گیراج ہوں یا 1884ء میں تعمیر ہونے والے سیٹھی خاندان کے چھ مکانات‘ 1900ء میں تعمیر ہونے والا گھنٹہ گھر (سر جارج کنگھم ٹاور) ہو یا مساجد اور عبادت گاہیں‘ بھارت کی فلمی صنعت کے حکمراں خاندانوں کی رہائش گاہیں ہوں یا 1936ء میں قائم ہونے والی ’تاج سوڈا واٹر‘ یا ساتویں صدی کی نشانی اور درانی عہد (1747ء سے 1823ء) میں موجودہ شکل و صورت میں توسیع و تعمیر ہونے والا قلعہ بالا حصار جو 1849ء سے پشاور کے دیدنی مقامات (attractions) کا حصہ ہے۔ الغرض پشاور میں ہر کسی کی دلچسپی اور ذوق کے مطابق کشش کے وسائل موجود ہیں‘ جنہیں کروڑوں روپے سے نہیں بلکہ روئیوں میں تبدیلی سے محفوظ اور اپنی اصل حالت میں برقرار رکھے جا سکتے ہیں۔ پشاور قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ہے تو اِس کا رونقیں اُور تاریخ کا سفر جاری ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ پشاور وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر وقت گزرنے کا نہیں بلکہ وقت کے ٹھہر جانے کا احساس ہوتا ہے۔ یہی خوبی و کشش ہے جو بیرون ملک یا شہر رہنے والے اُن اہل پشاور کو بے چین رکھتی ہے جن کے خمیر و ضمیر پشاور سے اُٹھے ہیں اور اُنہیں جب کبھی موقع ملتا ہے دیوانہ وار پشاور کا رخ کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ پشاور سے متعلق فیصلہ سازی اور ترقیاتی عمل کو ماضی و حال سے متصل رکھا جائے اور سیاحتی ہوں یا غیرسیاحتی ترقیاتی اہداف‘ کسی بھی حکمت عملی کو وضع کرنے سے تاریخ کے اُس سفر کو ذہن میں رکھا جائے جو پشاور میں ایک خاص رفتار سے جاری نظر آتا ہے اور یہی سب سے قیمتی اثاثہ ہے کہ اہل پشاور اپنی تاریخ و ثقافت‘ اپنی زبان اور رہن سہن کو فراموش نہ کریں۔