کورونا وبا پھیلنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام و خواص کی جانب سے معمولات زندگی میں خاطرخواہ احتیاط دیکھنے میں نہیں آ رہی یعنی احتیاط کے بارے اعلانات ایک کان سے سنے اور دوسرے سے نکال دیئے جاتے ہیں۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پہلے فوج کو طلب کیا گیا اور اب ضلع مردان میں (پچیس جولائی سے) سات دن کیلئے ’مکمل لاک ڈاؤن‘ نافذ کردیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مردان خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں کے ڈپٹی کمشنر کیلئے ’مکمل لاک ڈاؤن‘ نافذ کرنے کا اعلامیہ جاری کرنا یقینا آسان فیصلہ نہیں ہوگا لیکن اِس کے سوا کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں تھا۔ جس دن مردان میں مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا اُس دن بھی کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافے اور اِس سے ہوئی اموات کے لحاظ سے مردان سرفہرست تھا جہاں 24 گھنٹوں میں 1232 مزید کورونا کیسز سامنے آئے۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں میں معالجین بھی شامل ہیں!مردان ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں ’خیبرپختونخوا ایپی ڈیمک کنٹرول اینڈ ایمرجنسی ریلیف ایکٹ 2020ء‘ کی 8ویں اور 21ویں شق کا حوالہ دیتے ہوئے ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ایکٹ‘ کی 22ویں شق کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی رو سے ضلعی انتظامیہ کسی ضلع میں آمدورفت ماسوائے علاج معالجے اور اشیائے خوردونوش کی ترسیل و فروخت کو معطل کر سکتی ہے۔ مردان کی ضلعی انتظامیہ نے جہاں تمام بازار بند رکھنے کا حکم جاری کیا وہیں مال مویشی منڈیاں اور میلے بھی منسوخ کر دیئے جہاں بھیڑ بھاڑ دیکھنے ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ضلع مردان میں کورونا سے متاثرین کی شرح 35.4فیصد جبکہ پشاورمیں 22.6 فیصد ہے یعنی جب سردرد اور بخار جیسی عمومی علامات رکھنے والے 100 افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو اُن میں 35 سے زیادہ مردان اور 22 سے زیادہ کورونا متاثرین پشاور میں پائے جاتے ہیں جو مرض کے پھیلنے کی انتہائی بلند شرح ہے۔ پشاور میں کورونا کی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہوئی اب تک کی کل (3 ہزار 134) اموات میں سے نصف کا تعلق پشاور سے ہے! جب ہم تین ہزار سے زیادہ اموات کا ذکر کر رہے ہیں تو یہ تین ہزار انسانوں کی بات ہو رہی ہے جو غیرمعمولی بات ہے۔ تصور کریں کہ کسی ایک دن اور ہر دن اگر خیبرپختونخوا میں دو درجن سے زائد اموات ایک ایسے مرض کی وجہ سے ہو رہی ہوں کہ جس سے احتیاطی تدابیر اختیار کر کے 90فیصد تک بچا جا سکتا ہے تو کیا کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs) پر عملدرآمد گھاٹے کا سودا ہے؟ستمبر سے دسمبر دوہزاراُنیس کے دوران چین کے شہر ووہان تک محدود ایک وبا پوری دنیا میں کیسے پھیلی اور اِس وبا کی تبدیل شدہ اشکال کس طرح علاج معالجے کے نظام کو متاثر کر رہی ہیں‘ یہ صرف سوالات نہیں بلکہ ایسے گھمبیر حالات ہیں کہ اگر اِن میں معالجین اور حکومت کے مشورے پر خاطرخواہ عمل درآمد نہ کیا گیا تو خدانخواستہ کرہئ ارض پر انسان کا وجود تک نہیں رہے گا جو پہلے ہی خطرے سے دوچار ہے۔ کورونا وبا سے قبل اور کورونا وبا کے بعد کی دنیا یکسر مختلف نظر آتی ہے کہ اِس مختلف دنیا میں انسانی قدریں اور رہن سہن کے انداز تبدیل ہو گئے ہیں اور اس موذی قدرتی وبا نے مستحکم عالمی معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے باعث عالمی کساد بازاری دیکھنے میں آ رہی ہے‘ بے روزگاری عام ہے اور کئی ممالک کی معیشتیں عملاً دیوالیہ دکھائی دیتی ہیں۔ عالمی سطح پر کورونا سے متاثرین کی کل تعداد 14 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جو کسی ملک کی آبادی کے مساوی تعداد ہے جبکہ دنیا بھر میں کورونا وبا سے چالیس لاکھ اموات لمحہئ فکریہ ہیں! اگرچہ چین‘ روس‘ یورپ اور امریکی دوا ساز کمپنیوں نے کورونا ادویات (ویکسینز) ایجاد کی ہیں مگر یہ ویکسینز کورونا کے مکمل تدارک کی ضمانت نہیں اور عالمی ادارہئ صحت کی متعین کردہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد میں نرمی اختیار کرنے والے ممالک یا شہروں میں کورونا پھیلاؤ کی صورتحال پریشان کن حد تک زیادہ ہے اس لئے محض کسی ویکسین (طریقہئ علاج) کو کورونا سے خلاصی کا ذریعہ سمجھنا اور اِس زعم میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا کھلم کھلا موت کو دعوت دینے کے مترادف عمل یعنی خودکشی ہے‘ جسے اسلام نے حرام عمل قرار دیا ہے!اہل پشاور کو ’اِجتماعی طور پر‘ دانشمندی اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمجھنا ہوگا کہ اگر (اب بھی) احتیاط نہ کی گئی تو مردان کی طرح پشاور میں بھی ’مکمل لاک ڈاؤن‘ نافذ کر دیا جائے گا‘ جو پہلے ہی تجویز کر دیا گیا ہے لیکن چونکہ پشاور ایک مرکزی شہر (صدر مقام) ہے اور یہاں سے پورے صوبے کو اجناس و اشیا کی ترسیل ہوتی ہے تو ’مکمل لاک ڈاؤن‘ سے اُن علاقوں میں بھی معاشی و کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی جہاں کورونا وبا فی الوقت قابو میں ہے لیکن بعید نہیں کہ جس طرح ضلع بنوں میں اچانک سے کورونا وبا پھیلنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں اِس طرح کم آبادی والے دور افتادہ اضلاع بھی (خدانخواستہ) کورونا وبا کی لپیٹ میں آ جائیں۔ فیصلہ ساز اِسی لئے پشاور میں مکمل لاک ڈاؤن کو ہر دن مؤخر کر رہے ہیں کیونکہ خیبرپختونخوا کی معیشت بالعموم اور پشاور کی معیشت بالخصوص مکمل لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جزوی یعنی سمارٹ لاک ڈاؤن کے بھی اپنی جگہ منفی اثرات ہوتے ہیں جن سے اقتصادی کساد بازاری اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے لیکن مکمل لاک ڈاؤن فی الحقیقت ایک عام آدمی (دیہاڑی دار طبقے) کیلئے ڈراؤنا خواب ہے جو پہلے ہی بھوک سے مر رہے ہیں‘ جن کے پاس روزگار کے مستقل ذرائع نہیں اور اگر مکمل لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو محنت مزدوری کرنے والے طبقات عملاً زندہ درگور ہو جائیں گے! کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی خط ِغربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے اور جسے زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں ہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کیا ہے جہاں علاج معالجہ پہلے ہی غیرمعیاری تھا جب اُن پر کورونا وبا جیسی ”غیر اعلانیہ ہنگامی صورتحال (ایمرجنسی)“ کا بوجھ بڑھ گیا ہے تو صورتحال دگرگوں دکھائی دیتی ہیں کہ ادویات‘ ونٹی لیٹرز اور آکسیجن کی کمی کو دور کرنے کیلئے اموات کی شرح میں اضافے کو زیادہ قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں بستر دستیاب رکھنے کیلئے اموات میں اضافے ہونے سے متعلق عوامی شکایات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاج گاہوں میں صرف بستروں‘آکسیجن اور ادویات ہی کی کمی نہیں بلکہ متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہر طبی عملے کی بھی کمی ہے۔ اس صورتحال میں اگر اب بھی کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا تو یقینی امر ہے کہ وبا پھیلتی چلی جائے گی جس کیلئے دوسرے نہیں بلکہ ہم سب یکساں قصوروار (ذمہ دار) ہیں کیونکہ صرف ایک فریق (حکومت) ہی نہیں بلکہ کورونا سے نمٹنے میں جملہ فریقین نے اپنی اپنی حیثیت اور اپنا اپنا سماجی و انفرادی کردار ادا کرنے میں خاطرخواہ دلچسپی‘ دردمندی و ذمہ داری کا عملاً مظاہرہ نہیں کیا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی‘ اہل پشاور کو اپنے درمیان (آس پاس) موجود ’کورونا وبا‘ کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اُس احتیاط سے زیادہ احتیاط اور اُس فکرمندی سے زیادہ فکرمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا‘ جسے اختیار کرنے میں پہلے ہی بہت دیر (تاخیر) ہو چکی ہے۔