وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اورچینی سفیر نونگ رونگ نے ضلع خیبر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے سکولوں کی تعمیر نو کے منصوبے کے پہلے مرحلے کا افتتاح کر دیاہے۔ منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں ضلع خیبر میں 50 تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر نوکی جائے گی۔جن میں 24 بوائز اور 26 گرلز سکول شامل ہیں۔منصوبے پر مجموعی طور پر دو ارب 32کروڑ روپے لاگت آئے گی۔چینی حکومت اس مقصد کیلئے ایک کروڑ دو لاکھ نو ہزار ڈالر کی امداد فراہم کرے گی جبکہ حکومت پاکستان تقریباً 86کروڑ 80لاکھ روپے دے گی۔یہ منصوبہ جنوری 2023 تک مکمل کیاجائے گا۔منصوبے پر عملدرآمد کیلئے محکمہ تعلیم اور متعلقہ چینی حکام کے درمیان معاہدے پر دستخط بھی کئے گئے۔ وزیر اعلیٰ نے ضم اضلاع میں تباہ شدہ سکولوں کی بحالی کیلئے مالی امداد کی فراہمی پر چینی حکومت کی کوششوں کو سراہا۔دو عشروں پر محیط دہشت گردی کی لہر کے دوران خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں کے علاوہ قبائلی اضلاع میں ہزاروں تعلیمی اداروں کو تباہ کیاگیا۔ان علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا اور امن کے قیام کے باوجود اب تک ہزاروں تعلیمی ادارے بحالی کے منتظر ہیں۔ اور اکثر مقامات پر بچے کھلے آسمان تلے حصول علم کیلئے کوشاں ہیں۔ پاک فوج اور بعض غیر سرکاری تنظیموں نے کچھ تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر نو کی ہے اور وہاں پانی اور بجلی سمیت دیگر سہولیات بہم پہنچائی ہیں تاہم اب بھی خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان، مہمند اور باجوڑ کے علاوہ نیبعض دوسرے علاقوں میں تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک بحال نہیں ہوسکا۔ قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت نے ان علاقوں کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز جاری کئے ہیں لیکن یہ وسائل سڑکوں کی تعمیر، تباہ شدہ انفراسٹریکچر کی بحالی اور نقل مکانی کرنے والے آئی ڈی پیز کی اپنے علاقوں کو واپسی اور انہیں دوبارہ آباد کرنے پر خرچ ہورہے ہیں۔ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ سرکار کی فائلوں میں قبائلی اضلاع کے تمام سکول فعال، تدریس کا عمل جاری اور سٹاف باقاعدگی سے ڈیوٹی دے رہا ہے لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اب بھی قبائلی اضلاع میں سینکڑوں بھوت سکول چل رہے ہیں‘حکومت سات قبائلی اضلاع اور چھ ایف آرز میں سکولوں کا سروے کرے تو سنسنی خیز انکشافات ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردی کی لہر کے دوران تباہ ہونے والے سکولوں کی بحالی کا کام شروع ہونا نہایت خوش آئند ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی تعلیم کے فروغ کے بغیر ممکن نہیں۔ قبائلی اضلاع کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو وہاں معیاری تعلیم کے فروغ اور تعلیمی اداروں کو فعال بنانے پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی۔ کسی بھی محکمے میں سزا اور جزا کا نظام قائم کئے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ قوم کے معماروں کا مستقبل تباہ کرنے والے دراصل قومی مجرم ہیں انہیں بے نقاب کئے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کئی سالوں بعد حکومت نے قبائلی اضلاع میں تعلیم اداروں کی بحالی پر کام شروع کردیا ہے۔ یہ کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معماران قوم کا تعلیمی مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔حکومت نے ضم شدہ اضلاع میں بھرپور کوششیں کرکے معمولات زندگی کو بحال کیا ہے اور یہاں پر ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانے میں مصروف ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ طویل عرصہ تک بنیادی سہولیات سے محروم قبائلی اضلاع میں راتوں رات تمام معاملات درست نہیں ہوئے بلکہ اس کے لئے بڑے پیمانے پرمنظم انداز میں ترقیاتی منصوبوں کو پروان چڑھایا گیا۔