اہل پشاور نے کورونا وبا کی موجودگی‘ اِس کے جان لیوا حملہ کرنے کی صلاحیت کا بار بار انکار کرنے کے بعد (تیسری لہر میں) پہلی بار اپنے درمیان خطرے کو سنجیدگی سے محسوس کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ادویات سے لیکر ماسک و سینی ٹائزرز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ویکسینیشن سنٹرز پر بھی ہجوم دکھائی دے رہے ہیں جہاں پہلے اِکا دُکا شہری ہی قدم رنجہ فرماتے تھے آج کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے ساٹھ سال یا اِس سے زیادہ عمر کے لوگوں کیلئے بنا رجسٹریشن کورونا ویکسین کا اعلان کر رکھا ہے اور ایسے بزرگ لوگ ویکسینیشن سنٹرز پر اپنی سہولت کے مطابق (صبح دس بجے سے افطار اور افطار کے بعد سے رات گئے تک) آتے رہتے ہیں جبکہ اُن سے پہلے رجسٹریشن کے ذریعے آنے والوں کی تعداد اپنی باری آنے کی منتظر ہوتی ہے اور یوں ویکسینیشنز سنٹرز کے وسائل پر دباؤ سے جہاں شکایات پیدا ہو رہی ہیں وہیں رش کے باعث اکثر کورونا وبا سے احتیاط کے قواعد (SOPs) پر عمل درآمد بھی ممکن نہیں رہتا۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ بزرگ افراد کیلئے ’ویکسینیشن سنٹرز‘ الگ مقرر کئے جائیں اور حکومت قریب ترین ویکسینیشن سنٹر والی حکمت عملی پر نظرثانی کرے کیونکہ آنے والے دنوں میں ویکیسین لگوانے والوں کی تعداد مزید بڑھنے کے امکانات واضح ہیں۔عالمی ادارہ صحت (WHO) کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 17 ایسے شہر ہیں جو کورونا وبا کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور جہاں سے کورونا کیسیز کی تعداد میں بتدریج اضافے کی اطلاعات ہیں۔ اِن 17 شہروں میں سے 4 کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے جن میں مردان (30.6 فیصد)‘ پشاور (23.9 فیصد)‘ سوات (19.4فیصد) جبکہ نوشہرہ (18.1 فیصد) شامل ہیں۔ اِسی طرح ’کیس فیٹیلٹی ریٹ (CFR)‘ کے پیمانے پر خیبرپختونخوا میں کورونا سے متاثرین کی تعداد 2.7 فیصد ہے جبکہ اِس کی قومی شرح 2.16 فیصد ہے۔ مردان اور ایبٹ آباد میں ’سی ایف آر‘ قومی شرح سے دوگنی یعنی 4 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ صوابی 3.7 فیصد‘ پشاور 3.6فیصد اور سوات 3.3فیصد کی شرح پر ہیں۔ عالمی ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا ہر روز اوسطاً ’گیارہ سو‘ کورونا مریضوں کا اضافہ ہو رہاہے اور یہ اضافہ گزشتہ ایک ماہ سے ہر دن جاری ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی لائق توجہ و تفکر ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا سے ہونے والی سب سے زیادہ یعنی قریب 80فیصد اموات پشاور‘ مردان‘ سوات‘ نوشہرہ‘ ایبٹ آباد اور چارسدہ میں ہوئی ہیں جبکہ کورونا اموات سے متعلق اعدادوشمار وہی ہیں جو مریض علاج گاہوں میں دم توڑتے ہیں جبکہ فیصلہ سازوں کے سامنے پریشان کن زمینی حقائق بھی موجود ہیں کہ کورونا وبا سے ہونے والی اکثر ہلاکتیں رپورٹ نہیں ہو رہیں۔کورونا وبا سے پشاور کو محفوظ رکھنے کے لئے حکمت عملی میں چہرہ ڈھانپ کر رکھنے سے متعلق احتیاط (ماسک کا استعمال) مرکزی نکتہ ہے اُور اِس سلسلے میں ضلعی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی روڈ کے مختلف حصوں میں ماسک تقسیم کئے گئے اور ڈپٹی کمشنر دفتر کی جانب سے بار بار اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ کورونا احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی لیکن اِس کے باوجود بھی احتیاط عام نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ صوبائی کابینہ کے اراکین کی جانب سے ماسک نہ پہننے اور عوامی اجتماعات کے انعقاد یا اِس میں شرکت جیسی مثالیں ہیں‘ جن کی وجہ سے عام آدمی کورونا وبا سے محفوظ رہنے سے متعلق احتیاطی تدابیر کو خاطرخواہ توجہ نہیں دیتا کورونا مرض کی علامات میں استعمال ہونے والی ادویات کی کمی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ماسک و سینی ٹائزرز کی قیمتوں میں بھی آئے روز اضافے سے صارفین پریشان ہیں۔ یوں تو ناجائز منافع خوری کی مثالیں ہمارے گردوپیش بھی بکھری پڑی ہیں کہ کس طرح ماہ رمضان المبارک اور عید کے تہواروں سے قبل اشیا کی قیمتیں مصنوعی قلت پیدا کر کے بڑھا دی جاتی ہیں بالکل اِسی طرح ماسک اور جراثیم کش محلول (سینی ٹائزرز) کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں جس کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو گراں فروشوں کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہئے۔ مفت ماسک تقسیم کرنے اور کورونا وبا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق عوام میں شعور کی نہیں بلکہ احساس ذمہ داری کی کمی ہے اور وہ علم و شعور رکھنے کے باوجود بھی اگر ماسک استعمال نہیں کر رہے تو اُنہیں مفت ماسک فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں لیکن اگر ماسک فروخت کرنے والے صورتحال سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو ایسے گراں فروشوں کے خلاف ضرور بالضرور کاروائی ہونی چاہئے گزشتہ ہفتے اندرون ملک تیار ہونے والا 50 ماسک کا پیکٹ 120 روپے جبکہ اِسی تعداد میں چین سے درآمدی ماسک کا پیکٹ 160 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جن کی قیمت میں فی پیکٹ دس سے بیس روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور ایک ماسک ڈیلر کے بقول یہ اضافہ ہر نئی کھیپ کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے ماسک اور سینی ٹائزرز کی قیمتوں (نرخنامے) جاری کرنے کا نظام موجود نہیں اور جس کی جو مرضی آتی ہے وہ اُس قدر قیمت طلب کرتا ہے۔ اِس منظرنامے میں پہلی اور فوری ضرورت یہ ہے کہ پشاور کی کورونا وبائی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ’ہنگامی حالات‘ کے نفاذ کا اعلان کیا جائے اور کورونا وبا سے متعلق صرف ادویات ہی نہیں بلکہ دیگر ضروریات بشمول ماسک اور سینی ٹائزرز کی مہنگے داموں فروخت یا ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کرنے والے ناجائز منافع خوروں کے خلاف قانونی کاروائیاں کی جائیں۔ عجیب و غریب رویئے ہیں کہ ایک طرف لوگوں کو مدد اور ہمدردی کی ضرورت ہے لیکن دوسری طرف اُن کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے والے منافع خوری کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے! کیا بحیثیت انسان ایسے کردار اپنے ضمیر کے سامنے مطمئن ہوں گے‘ جن کے لئے وقتی اور محض ذاتی مالی مفاد ہی سب سے زیادہ اہم ہے؟