پشاور کہانی: منظر‘ پس منظر۔۔۔۔

پہلا منظر: کورونا وبا سے محفوظ رہنے کیلئے احتیاطی تدابیر (SOPs) میں شامل ’ماسک (mask)‘ کی خریداری یومیہ دیہاڑی دار طبقے کیلئے بوجھ ہے۔ الصبح سے دن ڈھلے تک مختلف بازاروں میں سڑک کنارے بیٹھے راج (ترکھان)‘ مستری‘ پینٹرز اور مزدوروں کیلئے ممکن نہیں کہ وہ ہر دن نیا ماسک خریدیں‘ ہاتھوں کو بار بار جراثیم کش محلول سے صاف کرتے رہیں جبکہ اِنہیں روزگار باقاعدگی سے نہیں مل رہا اور نہ ہی حکومتی اداروں کی نظر اور اکثر مخیر حضرات کی خیرات و صدقات اور زکوۃ اُس محنت کش طبقے تک پہنچ رہی ہے جنہیں پیشہ ور بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلانا نہیں آتا۔ ہنرمند بیروزگار جس مشکل سے گزر رہے ہیں اُس کا باآسانی خاتمہ دیہاڑی دار طبقات کے کوائف کی رجسٹریشن اور ’احساس پروگرام‘ میں اِنہیں شامل کرنے سے ممکن ہے۔ حکومت کی جانب سے ہنرمندی کے مراکز موجود ہیں‘ جہاں ایسے نوجوانوں کو خصوصی حکمت عملی کے تحت مختلف شعبوں میں ’ہنرمند‘ بنایا جا سکتا ہے جنہیں عموماً مزدوری (روزگار) نہیں مل رہا اور جو خاطرخواہ خواندہ بھی نہیں۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ وقتی طور پر مالی امداد مسئلے کا پائیدار حل نہیں لیکن اگر انہیں ہنرمند بنایا جائے تو اِن محنت کشوں کے روز و شب اور حکومت کے بارے میں رائے بدل سکتی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر کے ماتحت عملہ) کورونا وبا کے خلاف عوامی شعور اُجاگر کرنے کیلئے مفت ماسک تقسیم کرتے ہیں اور یہ ماسک عموماً اُن بازاروں میں تقسیم کئے جاتے ہیں جہاں آمدن کے لحاظ سے متوسط اور امیر طبقات خریداری کیلئے آتے ہیں لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھڑے یومیہ دیہاڑی دار مزدور طبقہ ضلعی انتظامیہ کو دکھائی نہیں دے رہا۔ حکمرانی میں ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے دردمند روئیوں کی ضرورت ہے اور اُمید ہے کہ دیہاڑی دار مزدوروں کی مشکل کا حل تلاش کرنے کے لئے دردمندی سے غور کیا جائے گا۔دوسرا منظر: کورونا وبا سے خیبرپختونخوا میں یومیہ ہلاکتیں 3 درجن سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ سرکاری علاج گاہوں کے وسائل پر بوجھ میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران خریداری اور اجتماعی عبادت کے دوران احتیاطی تدابیر (ایس اُو پیز) کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے باعث اندیشہ ہے کہ کورونا متاثرین کی تعداد رمضان کے آخری عشرے‘ عیدالفطر کے دوران اور فوراً بعد غیرمعمولی (مزید) اضافہ ہوگا۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے صوبائی محکمہئ صحت نے نئی ہدایات (گائیڈ لائنز) جاری کی ہیں جن میں مرکزی و ضلعی ہسپتالوں کے منتظمین کو تحریراً کہا گیا ہے کہ وہ آکسیجن کا ذخیرہ اور علاج معالجے کی سہولیات ترجیحاً کورونا مریضوں کے مخصوص کر دیں۔ ذہن نشین رہے کہ اب تک کورونا وبا کے 14 فیصد مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ 5 فیصد مریضوں کو انتہائی نگہداشت اور مصنوعی آلات تنفس (وینٹی لیٹرز) کے ذریعے علاج معالجہ چاہئے ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی سبھی سرکاری علاج گاہوں میں آکسیجن کی کمی نہیں اور نہ ہی بستروں اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہے لیکن جس بڑے پیمانے پر کورونا احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے محکمہئ صحت کے فیصلہ ساز اچانک سامنے آنے والی کسی انتہائی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں‘ جو دانشمندانہ اقدام ہے لیکن اِن سبھی اقدامات میں ہسپتالوں میں موجود علاج معالجے کی سہولیات میں اضافہ نہیں کیا جارہا۔ کورونا وبا کی تیسری لہر اور ڈیڑھ برس مکمل ہونے کے بعد بھی علاج معالجے کی سہولیات میں خاطرخواہ اِضافہ نہیں کیا گیا۔ جن ہسپتالوں میں کورونا وارڈز (خصوصی شعبے) قائم کئے گئے ہیں‘ وہ دیگر امراض کیلئے مختص سہولیات میں کمی سے گنجائش پیدا کی گئی ہے جبکہ ضرورت کورونا وبا پر توجہ اور دیگر بیماریوں کو نظرانداز نہ کرنے کی ہے۔ مارچ 2020ء میں کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران عارضی (میک شفٹ) ہسپتال بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے لئے موزوں مقام کسی مضافاتی علاقے کا انتخاب کرنا تھا کیونکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے تینوں بڑے ہسپتال (لیڈی ریڈنگ‘ خیبرٹیچنگ اور حیات آباد کمپلیکس) کے آس پاس رہائشی مراکز ہیں اور اِن ہسپتالوں تک آمدورفت بھی گنجان آبادی کی وجہ سے آسان (باسہولت) نہیں رہی۔ تیسرا منظر: خیبرپختونخوا کی سرکاری علاج گاہوں میں تعینات طبی اور معاون طبی کیلئے تربیت کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ذہن نشین رہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی جانے والی ’میڈیکل آکسیجن‘ کے معیار پر بھی سوالیہ نشانات موجود ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ مائع حالت میں اور بڑے پیمانے پر آکسیجن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہر ہسپتال میں موجود ہو کیونکہ جب آکسیجن کو پائپ لائنز کے ذریعے ہسپتال کے مختلف حصوں میں زیرعلاج مریضوں تک پہنچایا جاتا ہے تو اِس کی بڑی مقدار ہوا میں تحلیل ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے اور مریض تک آکسیجن اِس حالت میں نہیں پہنچتی کہ اُس گیس میں کم سے کم 82 فیصد مقدار میں آکسیجن موجود ہو۔ اِس سلسلے میں جن آلات اور دباؤ بنائے رکھنے کیلئے جس مشینری کی ضرورت ہوتی ہے اُس کی کمی بیشی بھی دور ہونی چاہئے جبکہ اِس سلسلے میں ہسپتالوں کیلئے زیادہ مالی وسائل مختص کرنا ہوں گے تاکہ کوروناوبا کے موجودہ عمومی اور ممکنہ مزید ہنگامی حالات کی صورت علاج معالجے کی سہولیات مریضوں کا بوجھ اُٹھا سکیں۔