انعامی بانڈز: پریشانیاں۔۔۔۔

حاجی غلام حسین المعروف لالی انکل کے ہر دن معمولات کا آغاز ’ابراہیمی مسجد‘ سے شروع اور مسجد ہی پر ختم ہوتے ہیں۔ بینک سے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کی پہلی دہائی کا کچھ حصہ گھر کا سودا سلف لانے‘ ماہانہ پینشن کی وصولی اور انعامی بانڈز کی ہر قرعہ اندازی پر نظر رکھنا ہے جو نہ صرف اُن کی اپنی جمع پونجی سے وقتاً فوقتاً خریدے گئے بلکہ نواسے نواسیوں کی ’پاکٹ منی‘ بھی ’نانا ابو (لالی انکل)‘ ہی کے پاس بانڈز کی صورت جمع کروائی جاتی ہے اور وہ بانڈوں کو نہایت ہی سلیقے (ترتیب) اور حفاظت سے رکھتے ہیں‘ بالکل کسی بینک کی طرح اُن کے پاس ہر کھاتے دار (نواسے نواسی اور بیٹیوں) کی سرمایہ کاری کا ریکارڈ موجود ہے‘ جنہیں (خوش قسمتی کی صورت) گھر بیٹھے انعام مل جاتا ہے اگرچہ آج تک کسی بانڈ کا کوئی بڑا (پہلا‘ دوسرا‘ یا تیسرا) انعام نہیں نکلا لیکن لالی انکل ہر انعام کے ایک خاص تناسب سے مزید انعامی بانڈز خرید لیتے تھے اور ایک مرتبہ انعام نکلنے کے بعد انعامی بانڈ کو تبدیل کرنا بھی اُن کی ’بینکنگ حکمت عملی‘ کا حصہ ہے جو اُنہیں مصروف رکھتی ہے۔ لالی انکل ایسے تنہا کردار نہیں بلکہ اہل پشاور کی اکثریت کے ہاں‘ ایک وقت تک‘ انعامی بانڈز میں سرمایہ کاری کو محفوظ اور منافع بخش ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے جبکہ قومی بچت کی جانب رجحان کا دوسرا محرک یہ رہا کہ اِس کے کھاتوں میں شیڈول بینکوں میں کی گئی سرمایہ کاری پر منافع زیادہ ملتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے شرح سود میں کمی  کے بعد قومی بچت کھاتوں (اسکیموں) میں ہونے والی زیادہ تر سرمایہ کاری انعامی بانڈز کی صورت ہونے لگی جو صارفین کیلئے پریشانی کا باعث بن چکی ہے کہ حکومت نے بڑی مالیت کے انعامی بانڈز کو رجسٹریشن کے ایک خاص طریقے سے مشروط کر دیا ہے‘ جس سے ناخواندہ اور کم خواندہ کے علاوہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور محصولات و بینکاری کے علوم سے واقفیت رکھنے والے بھی پریشان ہیں یا اِس بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انعامی بانڈز سے متعلق نئے قواعدوضوابط سے خوش نہیں۔ قومی بچت صارفین کی اکثریت انعامی بانڈز کی اپنے کوائف (قومی شناختی کارڈ نمبر) سے رجسٹریشن کو ”خطرہ“ سمجھتی ہے اور اُنہیں اندیشہ ہے کہ سالہا سال کی جمع پونجی اگر رجسٹر کروائیں گے تو انکم ٹیکس اور آمدن کا ذریعہ بتانے کیلئے دستاویزات طلب کی جاتی ہیں جو اکثر کے پاس نہیں بالخصوص بیوہ خواتین کی جمع پونجی کا بڑا حصہ انعامی بانڈز ہی ہوتے ہیں اور ریٹائرڈ افراد کا مشغلہ و مصروفیت انہی نمبروں کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ رجحان یہ بھی ہے کہ گھر میں کچھ نہ کچھ نقدی رکھنے کی بجائے انعامی بانڈز رکھے جائیں لیکن شاید یہ روایت اب جاری نہ رہے اور انعامی بانڈز جن سے ایک غریب و متوسط فرد اپنے خواب اور اُمیدیں جوڑ لیتا تھا‘ اب صرف سرمایہ داروں ہی کیلئے مخصوص ہو جائیں!حکومت نے ساڑھے سات ہزار (7500) روپے اور پندرہ ہزار (15000) روپے مالیت کے انعامی بانڈز پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فنانس ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق مذکورہ دونوں پرائز بانڈز اکتیس دسمبر 2021ء سے پہلے منہا  (کیش) یا واپس کروائے جا سکتے ہیں اور اس مدت (اکتیس دسمبر) کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی تاہم حکومت نے پندرہ ہزار اور ساڑھے سات ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز رکھنے والے افراد کو یہ سہولت بھی فراہم کی ہے کہ وہ ان بانڈز کو پچیس ہزار اور چالیس ہزار روپے مالیت کے ’پرئیمیر پرائز بانڈز‘ میں تبدیل کروا سکتے ہیں اور اِس کیلئے اُنہیں مالیت کا فرق ادا کرنا پڑے گا۔ اِس سلسلے میں چھ کمرشل بینکوں کی برانچوں کو اختیار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ساڑھے سات ہزار روپے اور پندرہ ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز کے عوض ’سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس‘ اور ’ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لالی انکل ایسی کسی سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اگرچہ اُن کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں لیکن وہ بانڈز کو منہا (کیش) کروانے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ڈالر اور سونے و دیگر قیمتی دھاتوں میں سرمایہ کاری یکساں منافع بخش و محفوظ ہے جبکہ بٹ کوائنز (کرپٹو کرنسی) کی بڑھتی ہوئی قدر اور اِن میں سرمایہ کاری کا رجحان اپنی جگہ کشش رکھتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس سے قبل چالیس ہزار روپے اور پچیس ہزار روپے کے انعامی بانڈز پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور نئی پابندی کے بعد سب سے بڑی مالیت کا انعامی بانڈز پندرہ سو (1500) روپے کا رہ گیا ہے جبکہ اِس کے علاوہ ساڑھے سات سو روپے‘ دو سو روپے اور ایک سو روپے کے پرائز بانڈز بھی موجود ہیں‘ جن کا مستقبل معلوم نہیں۔ اِنعامی بانڈز بدعنوانی کا ذریعہ ہونے کے باعث فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے نشانے پر آئے کیونکہ اِن کے ذریعے کالے دھن (ناجائز ذرائع سے کمائی گئی دولت) کو باآسانی سفید دھن (جائز) بنایا جا سکتا ہے اور کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جب سرمایہ داروں اور بالخصوص حکمراں رہی سیاسی اشرافیہ سے اُس کی آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے پوچھا گیا تو اُنہوں نے انعامی بانڈز پیش کر دیئے جن کے انعامات کے ذریعے اُنہیں اربوں روپے کی آمدنی ہوئی تھی! حکومت نے بدعنوان عناصر اور بدعنوانی کی روک تھام کرنے کا مشکل کام کرنے کی بجائے فوری اقدام کرتے ہوئے انعامی بانڈز ہی پر پابندی عائد کر دی‘ جس سے چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے! بنیادی بات یہ ہے کہ انعامی بانڈز پر پابندی سے لیکر بینکاری کے قواعد میں نت نئی اصلاحات (سختیاں) ’ایف اے ٹی ایف‘ کی جانب سے عائد شرائط کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بشمول آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان سے چاہتے ہیں کہ وہ سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرے اور اِسی سلسلے میں انعامی بانڈز پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا جو غیر قانونی لین دین میں استعمال ہو رہے ہیں۔ انعامی بانڈ کی حیثیت ایسی ہوتی ہے کہ یہ جس کی جیب میں ہوں اُسی کی ملکیت ہوتے ہیں اور حکومت اِس طریقے کو رجسٹریشن سے تبدیل کرنا چاہتی ہے کہ اب انعامی بانڈز کی رجسٹریشن ہوگی اور حکومت کو معلوم ہوگا کہ کونسا بانڈ کس کے پاس ہے۔ کالے دھن کو انعامی بانڈز کے ذریعے سفید بنانے والوں سے نمٹنے کی کیا یہی واحد صورت ہے؟ عام آدمی (ہم عوام) کو سوچنا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ جمہوری اور غیرجمہوری اَدوار نے ملک کو سوائے قومی وسائل لوٹنے اور بدعنوانی کے اور کیا دیا؟ حکومت جو قومی بچت میں ہونے والی سرمایہ کاری اپنا مالی خسارہ پورا کرتی تھی اب اِس سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے زیادہ شرح سود پر قرض لے گی اور اُس کا بوجھ بھی عام آدمی ہی پر پڑے گا! انعامی بانڈز میں کل سرمایہ کاری ڈھائی سے تین سو ارب روپے کے درمیان ہے۔ کیا سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط قائم کرنے کے اگلے مرحلے میں ’غیرملکی کرنسی (بالخصوص امریکی ڈالر) بینک اکاؤنٹ بھی ختم کئے جائیں گے؟ ذہن نشین رہے کہ پاکستانی کھاتہ داروں کی غیرملکی بینک اکاونٹس میں 20 ارب ڈالر سے زائد رقم پڑی ہوئی ہے!۔