عوامی مینڈیٹ کی توہین۔۔۔۔

الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249کراچی کے ضمنی انتخابات کے نتائج مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسماعیل کی درخواست پر روک لئے ہیں اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی کی طرف سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کردی تھی۔ این اے 249کی نشست پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فیصل واڈا کے مستعفی ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 29ہزار 591ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ ایک ہزار 656جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 37ہزار935ہے۔ ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ صرف 21فیصد رہا۔اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالقادر مندوخیل محض16ہزار 156ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔ مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل کو 15473ووٹ ملے کراچی کے سابق میر اور پی ایس پی کے امیدوار مصطفی کمال 9227ووٹ لے کر چوتھے اور تحریک انصاف کے امجد آفریدی 8922لے کر پانچویں اور ایم کیو ایم کے محمد مرسلین 7511ووٹ لے کر چھٹے نمبر پر رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو دوبارہ گنتی کی بجائے ری الیکشن کی طرف جانا چاہئے۔ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ بہت کم رہا، مجموعی طور پر 21 فیصد رجسٹرڈ ووٹ ڈالے گئے۔جیتنے والا امیدوار 5 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کر کے ایم این اے بن گیا۔اس قسم کا الیکشن جمہوریت کے ساتھ مذاق ہوگا۔ پیپلز پارٹی اپنے امیدوار کی کامیابی پر پھولے نہیں سما رہی تاہم ان کی اپوزیشن اتحادی مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کی کامیابی کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ سندھ کی حکومت چونکہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اس لئے مسلم لیگ ن کی طرف سے دھاندلی کا الزام تعجب خیز نہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ انتخابات میں پانچ یا سات فیصد ووٹ حاصل کرنے والا ساڑھے تین لاکھ ووٹرز کا نمائندہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ضمنی انتخابات میں ووٹنگ کی شرح عام انتخابات کے مقابلے میں عموماً کم ہی رہتی ہے لیکن محض اکیس فیصد ٹرن آؤٹ اور پانچ فیصد ووٹ لے کر 95فیصد پر حکمرانی کرنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کے لئے مل کر کام کرنے کی پیش کش کی ہے حقیقت یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کرانا جمہوریت کے ساتھ واقعی مذاق ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور سوئزر لینڈ جیسے جمہوری ملکوں میں بھی100فیصد ٹرن آؤٹ نہیں رہتا۔ لیکن کم از کم دو تہائی نہیں تومجموعی ووٹرز کی نصف تعداد کو ووٹ کا اپنا قومی فرض ادا کرنا چاہئے۔ جس حلقے میں پچاس فیصد سے کم ٹرن آؤٹ آئے۔ وہاں انتخابی نتائج کو منسوخ کرنا چاہئے۔ووٹ ڈالنے کو قومی فرض قرار دینا چاہئے اور دانستہ طور پر ووٹ کا حق استعمال نہ کرنے والوں کیلئے سزائیں مقرر ہونی چاہئیں۔ مایوس کن ٹرن آؤٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ انتخابی اور جمہوری نظام سے مایوس ہوچکے ہیں جب انہیں معلوم ہے کہ ان کے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو وہ کیوں ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشن آئیں۔ جمہوری اور انتخابی نظام میں عوام کی عدم دلچسپی کے ذمہ دار ملک کی سیاسی جماعتیں، سیاسی قائدین اور مراعات یافتہ طبقے کے لئے تیار کیاگیا انتخابی نظام ہے۔سیاست دان صرف ووٹ لینے کیلئے عوام کے پاس آتے ہیں کامیاب ہونے کے بعد ووٹرز انہیں خواب میں بھی نہیں دیکھ پاتے۔انتخابی نظام میں اصلاحات وقت کا تقاضہ ہے اور اگر حقیقی معنوں میں ایسا نظام وضع کیا جائے جسے عوامی قبولیت حاصل ہو تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔