خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کی شدت ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے زیادہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اِحتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد کرنے کی کسی بھی کوشش‘ خواہش اور حکم پر شروع دن سے خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل درآمد دیکھنے میں آیا اور اب جبکہ کورونا وبا کی تیسری لہر جاری ہے تو سول نافرمانی جیسا ’حکم عدولی‘ کا سلسلہ اُس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ جہاں مختلف طبقات اپنے اپنے مالی و کاروباری مفادات کو پیش نظر رکھے ہوئے انتہا درجے کی ”خودغرضی“ کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو خودکشی کرنے کے مترادف اقدام ہے کیونکہ بنا احتیاط سماجی سرگرمیوں کو جاری رکھنا محفوظ نہیں اور کسی واجبی یا وقتی مالی فائدے کیلئے بڑے پیمانے پر انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ روایت رہی ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا آغاز ہونے پر بازاروں کی رونقیں رات گئے سے سحری تک جاری رہتی ہیں اور اِس کی بنیادی وجہ موسم گرما بھی ہے کہ دن کے اوقات میں گرمی اور روزے کے باعث بھوک و پیاس کی شدت میں خریداری کا وہ لطف نہیں آتا جو رات گئے آتا ہے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیلات سے سبب بھی تمام دن بوریت میں بسر کرنے والے روزہ افطار کرنے کے بعد ضروری و غیرضروری طور پر بازاروں کا رخ کرتے ہیں جہاں کورونا احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزیاں بطور فیشن کرنے والوں کے جھتوں (گروہوں) میں ہر عمر اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے شامل ہوتے ہیں۔ اِس صورتحال کو قابو کرنے کیلئے صوبائی حکومت اور پشاور کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) نے مجبوراً ’لاک ڈاؤن‘ میں سختی کے احکامات جاری کئے جن کے خلاف فوری اور شدید مزاحمت لمحہ فکریہ ہے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد نہ ہونے کی عمومی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا اعلامیہ (یکم مئی) جاری کیا جس میں بازاروں کے اوقات محدود کر دیئے گئے اور چاند رات پر بازاروں کو بند رکھنے کا حکم بھی اعلامیے میں بطور خاص شامل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 8 سے 16مئی ہر قسم کی کاروباری و سیاحتی سرگرمیاں معطل کرنے کا یہ حکمنامہ صرف پشاور ہی سے متعلق نہیں بلکہ صوبائی حکومت نے بھی مذکورہ عرصے (آٹھ سے سولہ مئی) کے دوران صوبے کے سبھی سیاحتی مقامات (بالائی علاقوں) کی جانب آمدورفت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سال گزشتہ بھی نتھیاگلی وگلیات‘ کالام‘ مالام جبہ‘ کمراٹ‘ کاغان‘ ناران اور سوات کے سیاحتی مقامات پر ہوٹل‘ ریسٹورنٹس‘ شاپنگ مالز‘ پارکس اور پکنک سپاٹس اِسی قسم کی پابندی کے تحت بند کئے گئے تھے تاکہ کورونا وبا کا پھیلاؤ روکا جا سکے لیکن وہاں بھی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں۔ اِس سلسلے میں اگر صوبائی حکومت مذکورہ عرصے (آٹھ سے سولہ مئی) سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دے تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ سرکاری گاڑی اور سرکاری ایندھن استعمال کرنے والے عیدالفطر کا تہوار اور رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اِس کی وجہ آمدورفت بڑھ جاتی ہے جبکہ وبائی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جو جہاں ہے وہ وہیں حالت سکون میں رہے اِسی طرح تاجروں نے بازاروں کی کشادگی کے مقررہ اوقات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور مقررہ اوقات کے بعد دکانوں کھلی رکھیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آدھے شٹر گرا کر کاروبار جاری رکھے گئے۔ یہ حکومت کی جانب سے کاروبار جاری رکھنے کیلئے رعایت دیتے ہوئے اوقات اور شرائط مقرر کی گئیں اور اُن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو اُس وقت تاجروں کے نام نہاد‘ خودساختہ مبینہ رہنما کہاں تھے اور اُنہوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟وبائی صورتحال میں اگرچہ حکومت نے ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ کا اعلان نہیں کیا لیکن ایک ہنگامی صورتحال بہرحال موجود ہے جس میں ہر دن سینکڑوں اموات ہو رہی ہیں اور علاج معالجے کی سہولیات پر مریضوں کے بدستور بوجھ میں کمی نہیں آ رہی۔ اِس صورتحال میں فیصلہ سازی کی سطح پر بروقت فیٖصلے‘ احکامات اور عوامی سطح پر ذمہ داری کا احساس اور ذمہ داری سے متعلق شعور و سنجیدگی کا مظاہرہ ایسی ضروریات ہیں جن پر عمل درآمد سے کوورنا وبا کے اندھا دھند پھیلاؤ کو روکنا ممکن ہے۔ پشاور کے اندرون شہر گنجان آباد علاقوں میں افطار سے چند گھنٹے قبلبازاروں میں روایتی گہما گہمی (رش) رہتی ہے جہاں خریداروں اور دکانداروں کی اکثریت نہ تو ماسک پہنے ہوتی ہے اور نہ ہی کندھے سے کندھا ٹکرانے والے ہجوم میں کورونا ایس اُو پیز پر عمل درآمد ممکن رہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر صوبائی حکومت و ضلعی انتظامی اگر ’لاک ڈاؤن میں سختی نہ کرے تو کیا کرے؟‘ جو لوگ کورونا وبا کی تیسری لہر اور اپنے گردوپیش میں بیماری کی شدت اور اِس سے ہونے والی اموات دیکھتے ہوئے بھی احتیاط نہیں کر رہے اُن کیلئے محض الفاظ (اعلامیے) کافی نہیں بلکہ دباؤ میں آئے بغیر حکومتی رٹ کو زیادہ سختی سے نافذ اور بحال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معاملہ انسانی جانوں کا ہے اور انسانی جان کی قدر و اہمیت کسی بھی طبقے کے کاروباری مفاد سے زیادہ اہم ہے۔