ریسکیواور ایمبولینس کااصل استعمال ۔۔۔۔

بات شروع کرنے سے قبل دومثالیں پیش کرناضروری سمجھتا ہوں ہمیں یا د ہے کہ ایک بارہمارے ایک پیارے دوست مختیار خان سرکاری ہسپتال میں زیر علاج تھے پھراچانک ایک رات ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور پھر وہ اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئے یہ واقعہ صوبہ کے سب سے بڑے ہسپتال یعنی ایل آریچ میں پیش آیا تھا اس ر ات ان کی نعش گھر پہنچانے کے لیے ہمیں کہیں سے بھی سرکاری ایمبولینس نہ مل سکی اورپھر نعش منتقلی کیلئے ہسپتال کے با ہر کھڑ ی نجی ایمبولینس کی خدمات کرایہ دے کر حاصل کی گئیں اب تصویر کاایک اوررخ دیکھتے ہیں کچھ ہفتے قبل ایک شادی میں شرکت کیلئے پشاورسے باہر جاناہوا ہمارے دوست سرکاری افسر کی بیٹی کی شادی تھی واپسی پر جب کارپارکنگ میں گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ایک عجب منظردیکھا اسی محکمہ سے تعلق رکھنے والے بعض اہلکار سرکاری ایمبولینس میں بیٹھے دکھائی دیئے معلوم ہواکہ شادی میں شرکت کیلئے یہ لوگ ایمبولینس میں تشریف لائے تھے اس سے قبل سناکرتے تھے کہ سرکاری ہسپتالوں کے پاس بھی ایمبولیسنز ہواکرتی ہیں مگر کبھی ان کااس طرح استعمال کبھی دیکھنے میں نہیں آیاگویا مریض کو تو میسر نہیں ہوتی البتہ شادیوں یاپھربچوں کو پارکوں میں لے جانے کیلئے پھر ان کااستعمال بڑی بے شرمی کے ساتھ کیاجاتاہے شاید یہی وجہ تھی کہ موجودہ صوبائی حکومت نے کچھ عرصہ قبل انتہائی بہترین فیصلہ کرتے ہوئے محکمہ صحت کے زیر اہتمام چلنے والے تمام ہسپتالوں کی ایمبولینسوں کو ریسکیو 1122کے حوالہ کردیا جو بجائے خود ریسکیو کی کارکردگی پر اعتماد کااظہارہے یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں کہ جب سرکاری اداروں پرسے لوگوں کااعتماد ختم ہوتا جارہاہے ریسکیو نے اپنی خدمات کی وجہ سے سرکاری اداروں اور عام لوگوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کی خلیج کو پاٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے اس وقت شاید واحد سرکاری ادارہ ہے جس کی خدمات حاصل کرنے کیلئے کسی سفارش یانذرانے کی ضرورت نہیں ہوتی بس ایک فون کال ہی کافی ہے جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم لوگ یہاں بھی بیمار ذہنیت کامظاہر ہ کرنے سے باز نہیں آتے اور ہرسال ہزاروں جعلی اورجھوٹی کالیں کرکے ریسکیواہلکاروں کے صبر وبرداشت کاامتحان لینے میں مصروف ہیں تاہم اس کے باوجود اس ادارے کی کارکردگی متاثر نہیں ہوسکی ہے محکمہ صحت کی ایمبولینسز جب ریسکیو کے حوالہ کی گئیں تو ان کی تعداد 351تھی گویا اتنی بڑی تعداد میں یہ ایمبولینسز غیرفعال چلی آرہی تھیں یا ذاتی استعمال میں تھیں اسی لیے تونجی کاروباری ایمبولینسوں کاکاروبار چل رہاتھا اتنی بڑی تعداد میں ایمبولینسز کادرست استعمال اب پہلی بارہونے لگاہے محکمہ صحت کی طرف سے جو ایمبولینسز ریسکیو کے حوالہ کی گئیں اگر تفصیل سے جائزہ لیاجائے تو ان میں ایبٹ آبادکی 18‘باجوڑکی  9‘بنوں کی 2‘ بٹگرام کی 8‘  بونیرکی  8‘ چارسدہ کی 17‘ چترال لوئرکی  8‘   ڈی ائی خان کی 16‘دیر لوئر کی  10‘ دیر اپر کی 17‘ہنگوکی 5‘ ہری پور کی 14‘ کرک  کی 11‘ خیبر کی  8‘کوہاٹ کی 15‘ کوہستان کی تین‘ کرم کی 8‘  لکی مروت کی 13‘ ملاکنڈ کی  13‘ مانسہرہ کی 12‘  مردان کی  19‘ مہمندکی 8‘شمالی وزیرستان کی  6‘ نوشہرہ  کی 11‘ اورکزئی کی 8‘ خود پشاورکی  19‘ شانگلہ کی  9‘جنوبی  وزیرستان کی  7‘صوابی کی 21  اور سوات کی  9ایمبولنیسز شامل ہیں اب چند ماہ کی کاکردگی کاجائزہ لیا جائے تو اب تک ان ایمبولینسوں کے ذریعہ 16953کاروائیاں کی جاچکی ہیں جن میں متعلقہ اضلاع کے اندر 8178اور اضلاع سے باہر  8757کاروائیاں شامل ہیں جن کے دوران کل 17092مریضوں کو منتقل کیاگیا پشاور میں ریفرل کیسز 1531رہے‘  مردان میں ان کیسوں کی تعداد 1164رہی‘ ڈی آئی خان میں 513‘سوات میں 2559‘ایبٹ آباد  میں 272‘نوشہرہ  میں 657  اورکوہاٹ میں 485 کیسز سامنے آئے اسی طرح ہری پورمیں ریفرل کیسزکی تعداد 17‘چترال کی 242‘چارسدہ کی 1495‘صوابی کی 1139 اور کرک کی  410رہی۔ریسکیوکے پاس یہ ایمبولینسز آنے کے بعد ضلع ملاکنڈ میں ریفرل کیسز823‘ہنگو میں 237‘باجوڑ میں 243‘مانسہرہ میں 373‘بونیرمیں 470 اور خیبرمیں 616کیسز سامنے آئے۔کوہستان میں 70‘شانگلہ میں 400‘دیر اپر میں 609‘دیر لوئر میں 655‘بنوں میں 30‘مہمند میں 435‘لکی مروت میں 613‘ ژکرم میں 120‘ٹانک میں 248اورکزئی میں 72بٹگرام میں 100 جنوبی وزیرستان میں 19اور شمالی وزیرستان میں 143 ریفرل کیسزریکارڈ کیے گئے۔یہ غالبا تین ماہ کی کارکردگی ہے یہ تمام تفصیل بیان کرنے کامقصد صرف یہ ہے کہ پتہ چل سکے کہ اگر ادارے فعال اور مستعد ہوں تو سرکاری اثاثے عوام ہی کے استعمال میں اس قدر مؤثر اندازمیں آسکتے ہیں کہ جس کی مثال ماضی میں نہیں ملے گی یہ کہاجاسکتاہے کہ پہلی بارمحکمہ صحت کے زیادہ ترایمبولینسوں کااصل استعمال شروع ہواہے ایک طرف اگر موجودہ حکومت کو کریڈٹ جاتاہے کہ اس نے انتہائی اہم اور بروقت فیصلہ کیاتو دوسری طرف ریسکیو کی بھی تعریف بنتی ہے کہ اس نے پھر حکومتی فیصلے کو درست ثابت کرنے کیلئے انتہائی متحرک انداز میں ان سرکاری اثاثوں کااستعمال کرکے بھی دکھایا اور یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ادارے خود نہیں چلتے افراد کے ذریعہ چلتے ہیں اگرادارے چلانے والے مستعد اور متحرک ہوں گے تو ا دارے بھی چلیں گے نہیں بلکہ دوڑیں گے۔ خوش قسمتی سے ریسکیو 1122ایک فعال اور متحرک ٹیم پرمشتمل ہے جسے  ڈاکٹر خطیر کی صورت میں ایک نوجوان اور نہ تھکنے والی قیادت میسر ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ریسکیوکی اپنی کارکردگی ہمیشہ سے نمایا ں رہی ہے بلکہ اب حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کی ایمبولینسوں کے صحیح استعمال کویقینی بنانے کی جو مشکل ترین ذمہ داری ان کے حوالہ کی ہے وہ بھی اچھے طریقے سے پوری ہونے لگی ہے ہماری دعاہے کہ موٹروے پولیس اورریسکیو1122جیسے سرکاری ادارے مستقبل میں بھی اسی طرح فعالیت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں تاکہ باقی سرکاری ادارے ان سے کچھ تو سیکھ سکیں۔