راشن کارڈ کی فلاحی سکیم۔۔۔۔

خیبر پختونخوا حکومت نے صحت انصاف کارڈ کی طرز پر صوبے بھر میں راشن کارڈ سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت صوبے کے نادار اور مستحق خاندانوں کو ماہانہ کی بنیادوں پر مفت راشن انکے گھروں پر فراہم کی جائے گی صوبے کی خواتین اراکین اسمبلی کے وفد سے گفتگو میں وزیر اعلیٰ محمود خان نے راشن کارڈ سکیم کے اجراء کو فلاحی ریاست کے مشن کی تکمیل میں ایک سنگ میل قرار دیا۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت صحیح معنوں میں ایک عوام دوست حکومت ہے جو ہمیشہ غریب طبقے کی فلاح و بہبود کا نہ صرف سوچتی ہے بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھا رہی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔وزیراعلیٰ نے یہ مژدہ بھی سنایا کہ صوبے کے مختلف شہروں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بڑے ہسپتالوں کے قیام پر کام جاری ہے تاکہ عوام کو علاج معالجے کی سہولیات مقامی سطح پر میسر ہوں اور صوبے کے بڑے تدریسی ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم کیا جاسکے۔تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں درکار تمام طبی آلات اور عملے کی کمی پوری کرنے کیلئے نو ارب روپے کے ایک منصوبے پر کام جاری ہے جو اگلے دو سالوں میں مکمل کیا جائے گا۔مہنگائی اور بے روزگاری کے موجودہ دور میں غریب خاندانوں کیلئے مفت راشن کی فراہمی بلاشبہ صوبائی حکومت کا انقلابی منصوبہ ہوگا۔ دیہی علاقوں میں بسنے والوں کیلئے راشن کارڈ سکیم 1970کے عشرے میں شروع کی گئی تھی۔ جس کے تحت عوام کو رعایتی نرخوں پر آٹا، گھی، چینی، نمک، چاول، دالیں اور دیگر اشیائے خوردونوش ماہوار بنیادوں پر فراہم کی جاتی تھیں۔ موجودہ حکومت کا راشن کارڈ منصوبہ اس لحاظ سے مختلف اور زیادہ کارآمد ہے کہ غریب خاندانوں کو بنیادی ضرورت کی اشیاء ان کے گھروں پر مفت فراہم کرنے کا پروگرام بنایاگیا ہے۔ یہاں اہم ایشو غریب خاندانوں کے تعین کا ہے۔ اگر پرانی فہرستوں کے مطابق زکواۃ فنڈ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وظائف حاصل کرنے والوں کو مفت راشن دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ غریبوں کی حق تلفی ہوگی۔ بی آئی ایس پی بلاشبہ ایک بہترین فلاحی منصوبہ ہے جس کی بیرون ملک بھی پذیرائی ہوئی ہے اور وہاں سے اس پروگرام کیلئے خاطر خواہ فنڈز بھی فراہم کئے جارہے ہیں تاہم اس سکیم کے تحت آج بھی پچاس فیصد غیر مستحق افراد کو وظائف دیئے جارہے ہیں اگرچہ وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے مالی امداد وصول کرنے والے ہزاروں غیر مستحق لوگوں کے نام فہرست سے نکلوئے ہیں جن میں گریڈ سترہ سے بائیس تک کے سرکاری افسران کی بیگمات شامل تھیں تاہم اب بھی ہزاروں کی تعداد میں غیر مستحق لوگ یہ مالی امداد وصول کرکے غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد صوبے کی آبادی میں ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بھی اس صوبے میں آباد ہیں جس کی وجہ سے صوبائی حکومت پر مالی بوجھ بڑھ گیا ہے اس کے باوجود غریب خاندانوں کیلئے مفت راشن کی فراہمی کا منصوبہ شروع کرنا غریب پروری کا ثبوت ہے۔ صوبائی حکومت اگر راشن کارڈ سکیم کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر شروع کرے اور مخیر لوگوں اور نجی اداروں کو بھی اس کار خیر میں شامل کرے تو حکومت پر مالی بوجھ کم پڑے گا اور اس سکیم کو مستقل طور پر جاری رکھاجاسکتا ہے۔ خیرات، زکواۃ، صدقات اور عطیات دینے میں ہمارے صوبے کے لوگ ہمیشہ سخاوت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ انہیں صرف یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ ان کے عطیات حقیقی معنوں میں مستحق، نادار، معذور، یتیم اور بے آسرا لوگوں تک پہنچائے جارہے ہیں۔