تیس دسمبر دوہزاربیس: وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکی زیرصدارت اقتصادی و صنعتی ترقی کیلئے 2 خصوصی علاقے (بستیوں) کے قیام سے متعلق پیشرفت کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ورسک روڈ پشاور اور شبقدر سے ماربل فیکٹریوں کو خصوصی صنعتی بستی (مہمند اکنامک زون) منتقل کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ صوبائی حکومت مہمند اکنامک زون اور بونیر ماربل سٹی کے نام سے خصوصی بستیوں کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے اور اِس مقصد کیلئے تمام حکومتی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ مذکورہ دونوں صنعتی بستیوں کے قیام کا بنیادی مقصد ضلع پشاور میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنا ہے۔تیس اپریل دوہزاربیس: پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ورسک روڈ پر کاروائی کرتے ہوئے 37 ماربل فیکٹریوں کو سربمہر کیا‘ جن پر ماحول کو نقصان پہنچانے اور ماربل فیکٹریوں سے متعلق قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ سربمہر کی جانے والی ماربل فیکٹریوں میں ایسی 11 ورسک روڈ اور ملاگوری کے علاقوں میں ہیں جن سے خارج ہونے والا آلودہ پانی بنا تطہیر نہر میں بہایا جاتا ہے چونکہ نہری نظام زراعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی جیسا اہم ہے اِس لئے سربمہر کرنے جیسی انتہائی کاروائی عمل میں لائی گئی‘ جس نے یومیہ مزدوری کرنے والے درجنوں مزدورں کو پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ڈپٹی کمشنر پشاور (خالد محمود) کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ مذکورہ فیکٹریوں کو ’فلٹریشن پلانٹ‘ نصب کرنے کی بارہا یاد دہانی کے باوجود انہوں نے ماحول دوست اقدامات نہیں کئے!
ماحول دوست کون اُور ماحول دشمن کون ہے؟ پشاور کی صنعتی بستیوں میں واقع چھوٹی بڑی صنعتیں ہی حسب استطاعت ’ماحول دشمن‘ نہیں بلکہ صنعتی بستیوں کے باہر موجود کارخانوں کی ترجیح بھی ماحول دوستی نہیں۔ مثال کے طور پر پشاور کے طول و عرض میں گاڑیوں کے سروس سٹیشن جہاں ہر قسم کی گاڑیوں کو دھویا جاتا ہے اور گاڑیاں دھونے کے اِس عمل میں انتہائی طاقتور بجلی کی طاقت سے چلنے والی موٹریں استعمال کر کے زمین کی گہرائی سے انتہائی صاف و شفاف پانی حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اُس قیمتی پانی سے گاڑیاں دھو کر اُسے نالے نالیوں میں بنا تطہیر بہا دیا جاتا ہے۔ اصولاً پشاور کے زیرزمین پانی پر صنعتوں کا حق نہیں لیکن شاید ہی حیات آباد‘ کوہاٹ روڈ اور دیگر صنعتی بستیوں میں کوئی ایک بھی کارخانہ ایسا ہو کہ جہاں زیرزمین سے پانی اپنی مرضی سے اور ضرورت سے زیادہ (اِنتہائی بے اِحتیاطی اور بے رحمی) حاصل نہ کیا جاتا ہو۔ پشاور کی صنعتکار یہاں کے قدرتی وسائل اور ماحول کا جس بُری طرح سے استحصال کر رہے ہیں‘ اُس کی مثال شاید ہی کسی دوسرے صوبے اور ملک میں تلاش کرنے سے بھی ملے لیکن چونکہ یہ صنعتکار سیاسی طور پر بااثر ہونے کے علاوہ مالی طور پر مستحکم ہیں اِس لئے ماضی کی ضلعی انتظامیہ ایسی کسی بھی قانون شکنی کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتی تھی جس کا تعلق بالخصوص ماحولیات کے تحفظ سے ہو۔
تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا صوبائی حکومت کا پہلا دور (مئی 2013ء سے جون 2018ء) اور اگست 2018ء سے جاری دوسرے دور حکومت میں ماحول کے تحفظ کو جس قدر اہمیت دی گئی ہے‘ اُس کی مثال و نظیر ماضی کے ادوار میں نہیں ملتی۔ قومی (وفاقی) سطح پر تحفظ ماحول کی کوششوں کو دیکھا جائے تو اِس سلسلے میں سب سے زیادہ قانون سازی پیپلزپارٹی کے آخری دور حکومت (2008ء سے 2013ء) میں ہوئی لیکن قانون سازی سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں سال 2014ء سے 2017ء کے دوران شجر کاری مہم (بلین ٹری سونامی) کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں درخت لگائے جبکہ اگست 2018ء میں برسراقتدار آنے کے فوراً بعد 3 ستمبر 2018ء کو وزیراعظم عمران خان نے پانچ سال میں ”10 ارب درخت“ لگانے کی مہم کا آغاز کیا جو کامیابی سے جاری ہے اور ہر سال مختلف موسموں کے مطابق اور مختلف علاقوں میں شجرکاری کی جاتی ہے۔ تحفظ ماحول کا عزم اور کوششیں صرف اُسی صورت کامیاب ہوں گی جبکہ اِنہیں سرانجام دینے کیلئے حکومتی ادارے مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کاروائیاں کریں۔امریکہ کی معروف جامعہ یلے یونیورسٹی (Yale University) ہر سال دنیا کے 180 ممالک کی ماحولیاتی کارکردگی کے بارے میں جائزہ (انوائرمنٹ پرفارمنس انڈیکس) جاری کرتی ہے جس کے مطابق سال 2020ء کے اختتام پر پاکستان کی ماحولیاتی عالمی درجہ بندی میں رینکنگ 169ویں نمبر پر تھی‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تحفظ ماحول کیلئے حکومت کے دعوے اور حکومتی اداروں کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ بات بھی لائق توجہ اور لمحہئ فکریہ ہے کہ دنیا میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این انوئرمینٹ پروگرام (UNEP) کے زیرانتظام 1974ء سے ہر سال ’5 جون‘ کے دن باقاعدگی اور پورے جوش و خروش سے تحفظ ماحول کا دن پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے جس کیلئے سال 2021ء کا پیغام (تھیم) ”ماحولیاتی تنوع کی بحالی (ecosystem restoration)“ رکھا گیا ہے یعنی صرف تحفظ ماحول کی کوششیں ہی نہیں بلکہ قدرت کے مقرر کردہ جس ماحولیاتی توازن (تنوع) میں بگاڑ آ چکا ہے اُسے بحال بھی کرنا ہے۔ ہر سال ایک نئے پیغام اور عزم کے ساتھ تحفظ ماحول کا دن وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں منانے کی روایت اِس مرتبہ تبدیل ہونی چاہئے بالخصوص جب ہم پشاور میں تحفظ ماحول کی بات کرتے ہیں تو اِسے ’غیرملکی ایجنڈا‘ قرار دینے کی بجائے قول و فعل کے اُس تضاد کو ختم کرنے اور فیصلہ سازی سے عملی اقدامات پر حاوی بدعنوانیوں کا سدباب ضروری ہے‘ جن کی وجہ سے پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں آنے والے ماہ و سال میں سیلاب‘ بے موسم بارشیں اور دیگر ماحولیاتی قدرتی آفات کا نزول ہوگا۔ انسانی تاریخ کے اگر بڑے قدرتی حادثات کو فہرست کیا جائے تو پہلے تین واقعات میں مجموعی طورپر 88 لاکھ 30ہزار اموات ہوئیں اور مذکورہ تین واقعات میں 1931ء میں آیا سیلاب پہلے نمبر پر‘ 1887ء میں آیا سیلاب دوسرے نمبر پر جبکہ 1556ء میں آیا زلزلہ تیسرے نمبر پر ہے جس کے باعث ایک دن میں 8 لاکھ تیس ہزار اموات ہوئی تھیں!