پشاور کہانی: مسجد مہابت خان۔۔۔۔

سال دوہزار چودہ: خیبرپختونخوا حکومت نے مالی سال 2014-15ء کے بجٹ میں مسجد مہابت خان کی بحالی کے لئے 5 کروڑ (پچاس ملین) روپے مختص کئے لیکن اپریل 2016ء میں کام روک دیا گیا کیونکہ محکمہ اوقاف کے پاس اِس قسم کے تعمیراتی کام کرنے کی مہارت یا تجربہ نہیں تھا۔مئی دوہزارسترہ: خیبرپختونخوا حکومت نے مسجد مہابت خان کے فن تعمیر کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس کی تعمیرومرمت اور بحالی کیلئے 8 کروڑ 77 لاکھ روپے منظور کئے اور یہ ذمہ داری محکمہ آثار قدیمہ کو سونپی گئی کہ وہ عرصہ  داز سے التوا کا شکار اِس منصوبے پر کام کا فوری آغاز کرے اور یہ کام جاری ہے لیکن فراموش کردہ بنیادی نکتہ یہ مسجد مہابت خان کی بحالی اُس وقت تک ممکن نہیں ہو گی جب تک اِس کا انتظام محکمہ اوقاف سے لیکر آثار قدیمہ کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔ عجیب صورتحال ہے کہ فیصلہ ساز اِس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ مسجد مہابت خان قیمتی اثاثہ ہے اور یہ اپنی اصل شکل و صورت میں بحال رہتے ہوئے اِس کی خاطرخواہ حفاظت بھی ہونی چاہئے لیکن اِس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے متعلقہ ادارے کی خدمات و مہارت سے ’کل وقتی استفادہ‘ نہیں کیا جاتا۔ سترہویں صدی (1630ء) میں تعمیر ہونے والی مہابت خان مسجد کا کل رقبہ 30ہزار 155 مربع فٹ ہے اور اِس کی تعمیر میں سفید سنگ مرمر کا استعمال اِس خوبصورتی‘ مہارت و نفاست سے کیا گیا ہے کہ یہ مسجد پشاور کی پہچان اور یہاں کے سیاحتی مقامات میں سرفہرست ہے حالانکہ اِس سے قدیم کئی دیگر تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ پشاور کے سیاحتی منظرنامے میں مسجد مہابت خان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کوئی ملکی یا غیرملکی سیاح ایسا ہوگا کہ جو پشاور کی سیر کیلئے تو آئے لیکن مسجد مہابت خان میں گزارے لمحات کی یادیں اور عکاسی اپنے ساتھ نہ لے جائے۔مسجد مہابت خان کی عمارت (ڈھانچے) اور اِس کی دیواروں پر ہوئی نقاشی کو جن بنیادی وجوہات کے سبب نقصان پہنچا ہے اور جب تک اِن محرکات کا سدباب نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک تعمیرومرمت اور بحالی کی جملہ کوششیں اور اخراجات رائیگاں رہیں گے اور بار بار‘ ہر بار کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی مسجد اپنی اصل حالت میں بحال نہیں ہو پائے گی۔ مسجد مہابت خان سے متصل کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہوئیں جن کی گہرائی میں بنیادیں کھودنے اور تعمیراتی کام میں پانی کا اِستعمال کرنے کی وجہ سے مسجد کے مرکزی ہال کے نقش و نگار اور کچی اینٹوں و چونے کے استعمال سے بنائے گئی اِس کی دیواریں متاثر ہوئیں لیکن ایسی تعمیرات پر پابندی عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی مسجد سے متصل عمارتوں کو خرید کر اِسے محفوظ اور وسیع کیا گیا۔ مسجد مہابت خان کی عمارت میں قائم دکانوں نے زیرزمین کھدائی کرکے اپنی دکانوں کو کشادہ کیا ہے جس سے مسجد کے صحن اور میناروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسی تمام زیرزمین تعمیرات ختم کر کے مسجد کے صحن اور میناروں کو محفوظ کیا جائے اور مسجد کی اراضی سے غلط استفادہ کرنے والوں کے کرائے نامے منسوخ کر کے دکانیں خالی کروائی جائیں جنہیں اسلامی عجائب گھر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جہاں پشاور کی اسلامی تاریخ سے جڑی نوادرات اور سیاحوں کیلئے مرکز بنایا جا سکتا ہے جو ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اندرون شہر ایسی کوئی بھی سہولت موجود نہیں۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ سال 2002-03ء کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے مسجد مہابت خان کیلئے خصوصی امداد دی گئی تھی۔ تب ثقافتی تحفظ کی بحالی کیلئے امریکی سفیر کے خصوصی فنڈ سے 14ہزار ڈالر (اُس وقت کے شرح تبادلہ کے مطابق قریب پچاس ہزار روپے) قبول کئے گئے جو متنازعہ رہا کہ شرعی طور پر کسی غیرمسلم ملک کی جانب سے مسجد کیلئے امداد قبول کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ بہرحال امریکی حکومت کی امداد بصد شکریہ واپس نہیں کی گئی البتہ وہ رقم کہاں خرچ ہوئی اِس بارے میں تحقیق ضرور ہونی چاہئے۔ مہابت خان کے نام سے منسوب مسجد مغلیہ عہد میں متعارف کروائے گئے اِسلامی فن تعمیر کا شاہکار ہے جسے اُس وقت کے گورنر مہابت خان نے تعمیر کروایا تھا۔ مہابت خان بیک پشاور اور کابل کے گورنر تھے جو ایک صوبہ ہوتا تھا اور اِسے 1891ء میں برطانوی راج کے دوران تقسیم کیا گیا۔ مسجد مہابت خان لاہور کی وزیرخان مسجد اور بادشاہی مسجد اور ٹھٹھہ کی شاہ جہان مسجد جیسا فن تعمیر رکھتی ہے لیکن مذکورہ تینوں کے مساجد کے مقابلے مہابت خان مسجد خستہ حال ہے اور اِس کی بحالی کے جملہ وعدے‘ اعلانات اور کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ صوبائی فیصلہ ساز شاید (ممکنہ طور پر) یہ بات نہیں جانتے کہ مسجد مہابت خان چونکہ پشاور کے مصروف ترین اور بڑے تجارتی مراکز کے درمیان ہے اِس لئے مخیر حضرات اِس کے اخراجات اور یہاں سہولیات کی فراہمی کیلئے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں جس سے بجلی و گیس کے بل‘ صفائی بشمول رنگ روغن‘ صفیں‘ پنکھے‘ پانی کی فراہمی‘ قرآن مجید کے نسخے‘ بلب اور پلمنگ و الیکٹریشن ورک جیسے کام کئے جاتے ہیں جبکہ مسجد کمیٹی کے اراکین جن میں ملحقہ صرافہ بازار (سونے چاندی اور قیمتی پتھروں کی خریدوفروخت کے مرکز) کے صاحبان ثروت تاجر شامل ہیں جس فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ دستاویزی نہیں۔ مسجد کے کئی ایسے خدمت گزار بھی ہیں جو باقاعدگی سے خطیر رقم عطیہ تو کرتے ہیں لیکن اپنا نام و شناخت ظاہر نہیں کرتے! اِس پوری صورتحال میں محکمہئ اوقاف کیلئے مسجد مہابت خان آمدن کا ذریعہ ہے۔ علاؤہ ازیں محکمہئ اوقاف کی اراضی (چارسدہ روڈ) قبضہ کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے اور یہ سبھی بے قاعدگیاں اُس وقت تک درست نہیں ہوں گی جب تک کڑے احتساب کا عمل شروع نہیں کیا جاتا۔