ایک چونکا دینے والی خبر آئی ہے کہ دنیا کی تیسری امیرترین شخصیت اورمائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اور ان کی اہلیہ نے اپنی 27سالہ ازدواجی زندگی کی بساط باہمی مشورے اور اتفاق رائے سے لپیٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ بل گیٹس فاؤنڈیشن کیلئے دونوں مل کر کام کرتے رہیں گے۔بل گیٹس اور ان کی اہلیہ نے ٹوئٹر پراپنی زندگی کی شراکت داری ختم کرنے اور کاروباری اشتراک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ان کی ستائیس سالہ رفاقت بہت اچھی رہی انہوں نے اپنے تین بچوں کی مل کر پرورش کی اورایک ایسی فاؤنڈیشن بنائی جو دنیا بھر میں لوگوں کو صحت مند اور سود مند زندگی گزارنے میں مدد کررہی ہے۔ بل گیٹس چند سال قبل تک دنیا کے امیرترین شخص تھے حال ہی میں ان سے یہ اعزاز چھن گیا ہے تاہم اب بھی وہ متمول ترین افراد کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کی کل دولت 130 ارب ڈالر ہے۔ طلاق کے بعد دونوں میاں بیوی میں اثاثوں کی تقسیم ہوگی اگر باہمی رضا مندی سے اثاثوں کو پچاس پچاس فیصد تقسیم کرنے پر اتفاق ہوا تو بل گیٹس کے حصے میں 65 ارب ڈالرزآئیں گے۔ یوں وہ دنیا کے سب سے امیر ترین افراد کی فہرست میں تیسرے سے 70ویں نمبر پر آجائیں گے۔بل گیٹس کا انجام نئے شادی کے خواہش مند لوگوں کیلئے کسی تازیانے سے کم نہیں۔ بہر حال اس بریک اپ سے یہ کہاوت سچ ثابت ہوئی ہے کہ کسی بھی کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اوراگر نتیجہ برعکس ہو تو پھر بھی اس میں عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ شادی، بیاہ اور رشتوں کو ہم لوگ جتنا سیرئس لیتے ہیں مغرب والے اس کی پروا بھی نہیں کرتے۔ان کیلئے شادی چند سالوں کا کھیل ہوتا ہے جب وہ اس کھیل سے اکتا جاتے ہیں تو مل بیٹھ کر علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور بچے دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کے رہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے۔بل گیٹس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہی ہے ان کی اہلیہ بھی تقریباً اسی عمر کی ہوگی۔ اب جو بھی ان سے شادی کے لئے ہاں کرے گا اس کی نظر دونوں کی دولت پر ہوگی۔ بعید نہیں کہ ہمارے لوگوں میں سے بھی بعض ڈالروں کے لئے قسمت آزمائی کریں۔ستائیس سال ایک ہی چھت تلے زندگی گذارنے، دولت کی ریل پیل، زندگی کی ہر آسائش میسر ہونے اور تین بچے بھی پیدا کرنے کے باوجود اگر میاں بیوی میں پیار، محبت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہو تو کیا کہا جاسکتا ہے۔مغربی معاشرے میں 80فیصد شادیاں زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر علیحدگی پر ختم ہوتی ہیں حالانکہ بڑھاپے کی عمر میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی حکومتوں نے اولڈ ہاؤسز قائم کرکے ان کے بڑھاپے میں پرورش کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان یکسانیت سے جلد اُکتا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں شادیوں کی شرائط کافی سخت ہونے کی وجہ سے میاں بیوی ایک دوسرے سے تنگ ہونے کے باوجود ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف سسرالیوں کا دباؤ ہے دوسری جانب نکاح خواں، گواہوں، شہ بالوں اور رشتہ داروں کی طرف سے ممکنہ سنگین نتائج کے خوف سے بھی میاں بیوی ساتھ رہنے کو دوسرے خطرات سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آپ میاں بیوی پچاس سال سے خوش و خرم رہ رہے ہیں یہ کیا راز ہے۔ بزرگ نے بتایا کہ پہلے ہی روزہم میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر شوہر غصہ کرے تو بیوی خاموشی سے کچن میں جائے گی اور اگر بیوی غصہ کرے تو شوہر گھر کے باہر لان میں جاکر بیٹھے گا۔ بزرگ نے بتایا کہ وہ پچاس سالوں سے لان میں چارپائی بچھا کر بیٹھا ہوا ہے اس وجہ سے ہماری شادی کامیاب رہی۔ یعنی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اس سلسلے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے جبکہ یورپ اور امریکہ میں یہ معاملہ بالکل مختلف ہے جس کا نتیجہ ایسے ہی واقعات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔