کورونا: داخلی محرکات‘ خارجی امداد۔۔۔۔

خیبرپختونخوا میں ڈاکٹروں کی صوبائی تنظیم (پروانشیل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”کورونا وبا سے 65 معالجین کی اموات ہوئی ہیں جن میں حالیہ صدمہ تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال تخت بھائی (ضلع مردان) کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ ڈاکٹر نور اسلام کی موت ہے۔“ کورونا وبا سے متعلق حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کرانے کے لئے ’لاک ڈاؤن‘ نافذ کیا گیا جس کی وجہ سے اگرچہ نئے کورونا متاثرین کی تعداد میں کمی آئی ہے اور وبا کا اندھا دھند پھیلاؤ تھم گیا ہے لیکن اِس کے باوجود کورونا متاثرین میں ہرد ن سینکڑوں کی تعداد میں اضافہ اور درجنوں اموات اِس بات کی متقاضی ہیں کہ احتیاطی تدابیر (لاک ڈاؤن) پر اِس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور ضروری نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی میں ماسک پہنا جائے یا کاروباری مراکز میں خریدوفروخت مقررہ اوقات کے مطابق کی جائیں۔کورونا وبا کی پہلی‘ دوسری اور جاری تیسری لہر کے دوران خیبرپختونخوا میں جہاں دستیاب علاج معالجے کی سہولیات کی کمی سامنے آئی وہیں ایسے معالجین کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی جو کورونا وبا کے متاثرین کو انتہائی و خصوصی نگہداشت میں علاج معالجہ فراہم کر سکیں چونکہ کورونا وبا وسیع پیمانے پر پھیلی اِس لئے علاج معالجے کی سہولیات (وسائل) کو تقسیم کر کے صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں رہا  اور اِس صورتحال میں کئی ہنگامی فیصلوں کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈاکٹروں کے ایثار نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کورونا وبا کی جاری تیسری لہر میں امریکی ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم (APPNA) کے اراکین اور خیبرمیڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹروں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں فاصلاتی علاج معالجے کی سہولیات میں مدد فراہم کی ہے اور یہ معالجین امریکہ میں بیٹھ کر انتہائی و خصوصی نگہداشت کے شعبوں میں زیرعلاج مریضوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں جس کے لئے مذکورہ تنظیم (اپنا) اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے درمیان ہوئی اُس مفاہمتی یاداشت کااستعمال کیا گیا ہے جو چند برس قبل دستخط ہوئی تھی اور اِس کے تحت انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں کام کرنے والے امریکی ڈاکٹروں کے پاکستان اور پاکستانی ڈاکٹروں کے امریکہ میں تربیتی دوروں کو ممکن بنانا تھا تاکہ جدید علاج معالجے سے متعلق علوم و تجربات منتقل ہو سکیں۔ امریکہ ڈاکٹروں کے اِس غیرمشروط تعاون کو ممکن بنانے میں جن ماہرین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اُن میں پیش پیش ڈاکٹر فواد گیلانی شامل ہیں‘ جو پشاور کی سرتاج روحانی‘ علمی‘ ادبی‘ سیاسی اور سماجی شخصیت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی العمروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان عالیشان سے تعلق رکھتے ہیں۔ فواد گیلانی نے سعودی عرب‘ پشاور اور کراچی سے طب کی تعلیم حاصل کی اور اُن کا شمار امریکہ کے نامور معالجین میں ہوتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور جس جس خمیر و ضمیر اور ذات کا حصہ ہوتا ہے وہ اِس شہر کی طرف ہمیشہ متوجہ رہتا ہے چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ امریکی معالجین ہر روز دو سے چار گھنٹے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرعلاج مریضوں کو دی جانے والی ادویات اور اُن کی صحت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ اُنہیں براہ راست نشریاتی وسائل کے ذریعے مریضوں کی حالت دکھائی جاتی ہے اور وہ علاج معالجے میں تبدیلی یا اِسے جاری رکھنے کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اِس طرح نہ صرف علاج معالجے کی سہولیات پر بوجھ کم ہوا ہے کہ بلکہ پشاور میں کام کر رہے طبی اور معاون طبی کی تربیت بھی ہو رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے اوقات میں دس سے بارہ اور بعض ریاستوں کا اِس سے بھی زیادہ گھنٹوں کا فرق ہے۔ جب ہمارے ہاں دن ہوتا ہے تو امریکہ میں رات ہوتی ہے اور پاکستانی نژاد ڈاکٹر اپنی راتوں کی نیندیں ترک کر کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اپنی براہ راست حاضری یقینی بناتے ہیں۔ معالجین کا یہ جوش و جذبہ لائق داد و تحسین ہے کہ اِس کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم  ہوگی۔ ذہن نشین ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’اپنا (فزیشن آف پاکستانی ڈیسیڈنٹ آف نارتھ امریکہ)‘ نے پاکستان میں کورونا صورتحال کے بارے میں تشویش اور ہمدردی کا اظہار کیا ہو بلکہ قبل ازیں مارچ دوہزار اکیس میں بھی ’اپنا‘ ہی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے نام ارسال کردہ ایک مکتوب میں اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں کورونا ویکسین کی قیمت زیادہ ہے اور ’اپنا‘ نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کورونا ویکسین کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کرنے کے احکامات جاری کریں۔ مذکورہ مکتوب امریکہ میں مقیم ڈاکٹر ارشد ریحان نے ارسال کیا تھا‘ جن کا تعلق آبائی طور پر خیبرپختونخوا سے ہے اور آپ ’اپنا (APPNA)‘ کے سیکرٹری ہیں۔پاکستان میں کورونا کی وبا اگرچہ بھارت کی طرح بے قابو نہیں لیکن اگر اِس کے پھیلنے کو روکنے کے خاطرخواہ اقدامات اور تعاون نہیں کیا جاتا تو وبا کے (خدانخواستہ) بے قابو ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا یہ مرحلہ ہوش کے ناخن لینے کا ہے۔ کورونا وبا پھیلنے کے جملہ اسباب بے اِحتیاطی و غیرذمہ دارانہ روئیوں پر مبنی ہیں اور جب تک یہ داخلی محرکات تبدیل (اصلاح) نہیں ہوں گے اُس وقت تک خارجی تکنیکی و مالی امداد خاطرخواہ سودمند نہیں ہوگی۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی معالجین کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے مشکل کی اِس گھڑی میں رابطہ اور اپنی مشاورتی خدمات فراہم کرنا کسی نعمت سے کم نہیں۔