عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) نے خیبرپختونخوا حکومت اور (بالخصوص) پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی توجہ ’ناجائز منافع خوری‘ اور ’بے قابو مہنگائی‘ کی جانب مبذول کرواتے ہوئے (بارِ دیگر) ہدایات جاری کی ہیں کہ عیدالفطر کے موقع پر صارفین کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے 3 طبقات (ذخیرہ اندوزوں‘ ناجائز منافع خوروں اور ملاوٹ کے ذریعے غیرمعیاری اشیاء فروخت کرنے والوں) پر نظر رکھیں اور ایسے عناصر کے خلاف حسب قوانین و قواعد سخت کاروائیاں عمل میں لائی جائیں۔ پانچ مئی کے روز جاری ہونے والی یہ ”واشگاف ہدایات“ چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس لعل جان خٹک پر مشتمل بینچ کی جانب سے جاری ہوئیں جن کے سامنے ڈپٹی کمشنر پشاور کیپٹن (ریٹائرڈ) خالد محمود پیش ہوئے اور اُنہوں نے عدالت کے سامنے ضلعی انتظامیہ کی کارگزاری پیش کرتے ہوئے کہا کہ 6 ہزار سے زائد چھاپوں میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف 349 مقدمات (ایف آئی آر) درج کی گئی ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر خالد محمود‘ ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ اور فوڈ سیکرٹری خوشحال خان کو یہ ہدایت بھی جاری کی کہ وہ عید کے بعد عدالت کو تحریراً آگاہ کریں کہ اُنہوں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے (مہنگائی کی روک تھام) کیلئے کیا کچھ اقدامات کئے گئے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی‘ اِس کی اپنے مرتب کردہ اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھی جائے تو سب اچھا ہے اور جس قدر بڑے پیمانے پر کاروائیاں کرنے کے دعوے کئے گئے اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے پشاور سے گراں فروشوں‘ ذخیرہ اندوزوں اور ملاوٹ کرنے والوں کا خاتمہ ہو جانا چاہئے تھا۔ اِسی طرح ضلعی بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سے متعلق اعدادوشمار دیکھیں تو وہ بھی آسمان کی بلندیوں کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں‘ جن کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ پشاور سے تجاوزات کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی ختم ہو چکاہے۔ پشاورکے باغات اور اراضی جو ماضی کے فیصلہ سازوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے منظورنظر افراد میں بانٹ دی تھی واگزار کروا لی گئی ہے۔حکومت کوسوچنا چاہئے کہ پشاور کے باغات (شاہی باغ‘ وزیرباغ) اور سبزہ زاروں (جناح پارک‘ چاچا یونس پارک) کے جن حصّوں کی نجکاری کی گئی اُنہیں منسوخ کرنے اور اِن باغات کو اَصل حالت میں بحال کرنے سے متعلق عدالت ِعالیہ کے فیصلوں (احکامات) پر کتنا عمل درآمد کیا گیاہے۔ عدالت عالیہ کا ایک فیصلہ گورگٹھڑی کی عمارت میں قائم تجاوزات کے خاتمے سے متعلق بھی موجود ہے جس پر عمل درآمد بھی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ عدالتوں کی طرف سے نوٹس بھی لیا جاتا ہے اور پھر ہدایات بھی جاری کی جاتی ہے تاہم ان پر عملدرآمد میں تیزی کی ضرورت ہے۔
سرکاری اعدادوشمار اور رپورٹیں اگر سراسر جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتیں تو بالکل اِسی طرح اِمکان (گنجائش) موجود ہے کہ اِن کا 100فیصد سچ ہونا بھی مشکوک ہے اور اگر اِن کی روشنی میں کسی سمت کا تعین کرنا ہے‘ کسی فیصلے اور نتیجہ تک پہنچنا ہے تو اُس کا حاصل بھی نامکمل رہے گا۔
برسرزمین حقائق تک پہنچنے کا ایک ذریعہ وہ اعدادوشمار بھی ہو سکتے ہیں جو پشاور سے متعلق عالمی ادارے وقتاً فوقتاً جاری کرتے ہیں۔ اِنہی میں شامل ایک رپورٹ پشاور کے مضافاتی (slums) و پسماندہ علاقوں (under-served areas) سے متعلق اَقوام متحدہ کے ذیلی اِدارے یونیسیف (یونائٹیڈ نیشنز چلڈرنز فنڈ) کی زیرنگرانی مرتب ہوئی اور اِسے ’جولائی 2020ء‘ میں جاری کیا گیا۔ مذکورہ رپورٹ ’یونیسیف‘ کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ یا یونیسیف پاکستان دفتر (اسلام آباد) سے طلب کی جا سکتی ہے جس کے مطالعے سے صورتحال واضح ہو گی کہ کس طرح پشاور کے نمائشی اور حقیقی منظرنامے الگ الگ ہیں اور کس طرح ہر سال اربوں روپے ترقیاتی فنڈز پر خرچ کرنے کے باوجود پشاور میں رہنے والوں کی نصف سے زائد آبادی غیرصحت مند زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگرچہ یونیسیف کی مذکورہ رپورٹ میں صحت سے متعلق عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اُن محرکات پر زیادہ توجہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں تاہم اِس رپورٹ کے کئی ایسے پہلو بھی ہیں جن کی روشنی میں پشاور کی ضلعی انتظامیہ‘ بلدیاتی فیصلہ سازوں اور صوبائی حکومت کی کارکردگی بحیثیت مجموعی اور انفرادی طور پر سمجھی جا سکتی ہے کہ عوام کو پینے کا صاف پانی‘ نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ کو تلف کرنا سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی ترجیحات کا حصہ نہیں!ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان صرف اِن باتوں سے پریشان ہیں کہ پشاور میں ذخیرہ اندوزی‘ مہنگائی اور ملاوٹ عروج پر ہے (بقول یونیسیف) پشاور کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں کی نصف سے زائد آبادی مضافاتی اور ایسے محروم توجہ علاقوں میں آباد ہے جہاں بنیادی ضروریات تک فراہم نہیں یعنی کسی بھی حکومتی اِدارے کی اِن نظرانداز علاقوں کی جانب توجہ مبذول نہیں جبکہ وہاں رہنے والے انتہائی غیرصحت مند ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں! مذکورہ رپورٹ کے مطابق پشاور کی آبادی قریب بیس لاکھ کا 76فیصد (پندرہ لاکھ) مضافاتی و پسماندہ علاقوں میں آباد ہیں۔ اِن علاقوں میں نصف ایسے ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو‘ نکاسیئ آب کی بجائے پانی گلی کوچوں میں بھٹک رہا ہو اور جہاں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر یہاں وہاں پڑے ہوں تو اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ وہاں کی آب و ہوا کس قدر متاثر ہوگی اور وہاں کے رہنے والوں کو درپیش جسمانی‘ ذہنی اور اعصابی مشکلات کس قدر ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے مسئلے کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا گیاجبکہ یہ اس امر کا تقاضہ کرتا ہے کہ آلودگی کے خاتمے اور صحت بخش ماحول پروان چڑھانے کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اور موثر اقدامات کئے جائیں۔