رمضان المبارک کے دوران مرغی کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافے میں 19 پولٹری فیڈ کمپنیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کے مطابق پولٹری فیڈ برائلر گوشت اور انڈوں کی لاگت کا تقریباً 80 فیصد ہے۔ پولٹری فیڈ کی قیمتوں میں اضافے سے مرغی اور انڈوں کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے۔دسمبر 2018 سے دسمبر 2020 کے درمیان فیڈ ملوں نے ملی بھگت کر کے پو لٹری فیڈ کی قیمتوں میں اوسطاً 836 روپے فی 50 کلوگرام اضافہ کیا جو 32 فی صد بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے مرغی کی قیمتوں میں 150فیصد اضافہ ہوا اور مرغی کا گوشت 120روپے کلو سے بڑھ کر 270روپے کلو تک پہنچ گئی اس طرح پولٹری فارموں اورفیڈ کمپنیوں نے باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکال لئے۔ تحقیقاتی کمیشن کو فیڈ کمپنیوں کے مابین قیمتوں کے حوالے سے حساس معلومات کے تبادلے اور گٹھ جوڑ کے شواہد بھی ملے ہیں انکوائری رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں سیکشن 4 کی خلاف ورزی میں شامل تمام پولٹری فیڈ کمپنیوں کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔چینی اور گندم کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے میں جو مافیا ملوث ہے وہی پولیٹری کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ عام لوگ نہیں، بڑے بڑے جاگیر دار، سرمایہ داراور کارخانے دارہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تعین یہی گروپ کرتا رہا ہے۔ مگر انتظامی اور قانونی نظام میں سقم کے باعث یہ لوگ ہمیشہ قانون سے بچتے رہے ہیں۔ ایک طرف غریب لوگ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل کر رہے ہیں دوسری جانب عوام کی چمڑی ادھیڑ کر اربوں کھربوں کے اثاثے بنانے والے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہوں۔ تو یہ ظلم اور ناانصافی ہے۔ یہ ہماری ذہنی پسماندگی کی انتہا ہے کہ جن لوگوں نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے بے دردی سے لوٹا اور بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔ آج بھی بہت سے لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے ان کی چوریوں کو جائز سمجھتے ہیں، ان کو ہار پہناتے ہیں اور ان کے پاؤں چھونے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ دین اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی کو غلط کام کرتے ہوئے دیکھو۔ تو بزور بازو اسے روکنے کی کوشش کرو۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں۔تو اپنی زبان سے اس کی مذمت کرو۔ اگر اس کی بھی استعداد نہیں رکھتے تو دل میں اسے برا سمجھو۔ اور یہ کمزور ترین ایمان کی علامت ہے۔دیکھا جائے توایک متحرک معاشرے میں اس طرح کی چالیں چلنا ممکن ہی نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پر ایک طرف حکومتی مشینری اگر متحرک ہوتی ہے تودوسری طرف عوام بھی اپنے بھلے اور برے کو جانتے اور پہچانتے ہیں اور اسکی جھلک ان کے فیصلوں میں نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ غل روش ہے کہ ان لوگوں کوبھی بار بار مواقع دئیے گئے جنہوں نے عوامی بھلائی اور ان کے فائدے کی بجائے حکومت میں آکر محض وقت گزارا اور ملکی ترقی کی بجائے اپنے کھاتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس وقت جتنے مسائل کا سامنا عوام کو ہے ان کے ذمہ دار بھی جان پہچانے ہیں۔ ایسے میں اگر ایک عام شہری موقع ملنے پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرے کہ انہی لوگوں کو اختیار اور حکومت ملے جو عوامی بھلائی اور ان کے فائدے کو مد نظر رکھیں اور مہنگائی سمیت جس قدر مافیاز نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے ان سے وطن عزیز کو نجات دلائیں۔