سیاحتی ترقی: شیشہ گری مشکل ہے!۔۔۔۔

خیبرپختونخوا میں سیاحتی ترقی سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکمراں جماعت (تحریک انصاف) کی حکمت عملی میں یہ بات بھی شامل تھی کہ صوبے کے مختلف مقامات بالخصوص پُرفضا بالائی علاقوں میں حکومتی قیام گاہیں (ریسٹ ہاؤسز) عوام کیلئے کھولی جائیں گی اور قیام و طعام کی اِن پرآسائش سہولیات جو ماضی میں صرف خواص (حکمراں طبقات اور سرمایہ دار اشرافیہ) کیلئے مخصوص ہوتی تھیں اُن سے عام آدمی (ہم عوام) بھی استفادہ کر سکے گا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تحریک انصاف جس استحصال کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی اُس کیلئے پہلے مرحلے میں سیاحتی ادارے کو خودمختاری دی گئی۔ سیاحت کیلئے زیادہ مالی وسائل مختص کئے گئے۔ سیاحتی ادارے کی افرادی قوت میں اضافہ کیا گیا۔ ماہرین کی مشاورتی خدمات حاصل کی گئیں لیکن یہ ساری کوششیں ناکافی ثابت ہوئیں  بلکہ حکومتی گیسٹ ہاؤسز کو مرحلہ وار اجارے پر دینے کیلئے تاریخیں مقرر کر دی گئی ہیں خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کی ترقی بالخصوص برطانوی راج کے دوران ہوئی جب صاحب بہادر (انگریزوں) نے سڑکوں اور راہداریوں کا جال بچھا کر سیاحتی مقامات تک باسہولت رسائی ممکن بنائی۔ اُنہوں نے سیاحتی علاقوں کا انتخاب کیا اور اُنہیں قدرتی وسائل جیسا کہ معدنیات‘ جنگلات اور پانی کے ذخائز کے نکتہئ نظر سے بھی دیکھا گیا لیکن قیام پاکستان کے70 سال کی کہانی یہ ہے کہ نہ تو کوئی نیا سیاحتی مقام بنایا گیا اور نہ ہی سیاحتی مقامات پر سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔اگست 2019ء میں وزیراعظم پاکستان کے حکم پر ’169 گیسٹ ہاؤسز‘ خیبرپختونخوا کے محکہئ سیاحتی ترقی کے حوالے کئے گئے اور اِس مرحلے کے بعد جب مذکورہ گیسٹ ہاؤسز کا سروے کیا گیا تاکہ اِنہیں مرحلہ وار عوام کیلئے کھولا جائے تو معلوم ہوا کہ 169میں سے صرف 47 ایسی حالت میں ہیں کہ اُن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ 80 گیسٹ ہاؤسز ایسے پائے گئے جنہیں انتہائی (major) تعمیرومرمتکی ضرورت تھی جبکہ دیگر حکومتی اداروں کے قبضے میں پائے گئے جنہیں سیاحتی ترقی کے ادارے کے حوالے نہیں کیا گیا چونکہ وزیراعظم عمران خان نے اِس معاملے میں خود دلچسپی لی تھی اِس سلسلے میں صوبائی وزیرخزانہ کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس (6 مارچ 2020ء) میں فیصلہ کیا گیا کہ گیسٹ ہاؤسز کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے یعنی تسلیم کر لیا گیا کہ یہ کام سیاحتی ترقی کے ادارے کے بس کی بات نہیں۔ اِس سلسلے میں اجارے کی پہلی پیشکشیں 17 اگست 2020ء کے روز طلب کی گئیں جو 48 گیسٹ ہاؤسز سے متعلق تھیں اور یہ سبھی گیسٹ ہاؤسز10 سال کے اجارے پر دیئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں ہونے والی ایک اور پیشرفت بھی لائق توجہ ہے کہ نتھیاگلی (بالائی ایبٹ آباد) میں گورنر ہاؤس‘ چیف منسٹر ہاؤس‘ کرناک ہاؤس‘ پولیس ریسٹ ہاؤس اور ہمالا ہاؤس بھی محکمہئ سیاحتی ترقی کے حوالے کیا گیا جنہوں نے 11جنوری 2021ء کو اِن میں سے کرناک ہاؤس اور پولیس ریسٹ ہاؤس کو اجارے پر دینے کی پیشکشیں مشتہر کیں لب لباب یہ ہے کہ جس قیمت پر وسیع و عریض رقبے اور شاندار فن تعمیر رکھنے والے گیسٹ ہاؤسز اجارے پر دیئے جا رہے ہیں وہ انتہائی کم ہے اور اِس قدر کم قیمت قبول کرنے کی بجائے اگر یہ گیسٹ ہاؤسز جامعات (اعلیٰ تعلیم کے اداروں) کو ’سمر کلاسز کے لئے دیئے جائیں اور کورونا وبا کی وجہ سے جو درس و تدریس کا عمل رک یعنی معطل ہو چکا ہے اُسے بحال کیا جا سکتا ہے۔ گلیات کی آب و ہوا سے مختلف و بامقصد انداز میں بھی فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے کہ اِس جنت نظیر خطے کو ”تعلیمی بستیوں“ میں تبدیل کر دیا جائے اور پورے ملک سے اعلیٰ و ادنیٰ تعلیمی سرگرمیوں کیلئے مخصوص کر دیا جائے۔