ضم اضلاع کی ترقی کے اہداف 

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ مشکل مالی حالات اور کورونا کے باوجود رواں سال وفاق کی جانب سے 48 ارب روپے کے ریکارڈ ترقیا تی فنڈز کی فراہمی ضم قبائلی اضلاع کو ترقی دینے کے حکومتی عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے، آئندہ سال کے بجٹ میں مقامی قیادت اور عوامی نمائندگان کی مشاورت سے ان منصوبوں کو ترجیح دی جائے جو عوام کی فوری ضرورت ہیں قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کی مانیٹرنگ اور مقررہ اہداف کے بروقت حصول پر نظر رکھنے کیلئے وفاق اور صوبائی حکومت کے نمائندگان پرمشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے۔منتخب نمائندے عوام سے قریبی رابطہ رکھیں اور ان کے مسائل حل کریں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ضم اضلاع کیلئے اب تک 217 منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے ان میں تعلیم، صحت، مواصلات، آب پاشی، سپورٹس، قانون و انصاف، زراعت، توانائی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کا سیاسی اور معاشرتی ڈھانچہ کافی حد تک تبدیل ہوچکا ہے لیکن معاشی شعبے میں اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ جس کی بڑی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والی معاشی کساد بازاری ہے۔ اگرچہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان نے قبائلی علاقوں کی ترقی کیلئے این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والا اپنے حصے کا تین فیصد ابھی تک نہیں دیا۔ تاہم وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج کی طرف سے ساتوں قبائلی اضلاع میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا عمل جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ 70سالوں کی محرومیوں کا ازالہ دوسالوں میں ممکن نہیں ہے۔ سردست قبائلی علاقوں میں بنیادی شہری سہولیات، تعلیم اور روزگار کی فراہمی پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی لہر کے دوران لاکھوں قبائلی اپنا گھر بار اور مال واسباب چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ بے سروسامانی کے عالم میں آئی ڈی پیز کیمپوں، کرائے کے مکانوں اور رشتہ داروں کے ساتھ قیام کرنے والے زیادہ تر قبائلی متاثرین امن کی بحالی کے بعد اپنے گھروں کو واپس جاچکے ہیں تاہم کچھ آئی ڈی پیز ابھی تک اپنے گھروں کو واپس جانے سے اس وجہ سے قاصر ہیں کہ امن کی بحالی کے باوجود وہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ سڑکیں، صاف پانی کی پائپ لائنز، آب پاشی کی نہریں، حجرے، دکانیں اور رہائشی مکانات کھنڈر بن چکے ہیں۔مفلوک الحال متاثرین کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت بنیادی ڈھانچے کی بحالی ممکن نہیں۔ اس لئے حکومت کو سب سے پہلے بے گھر ہونے والے قبائلیوں کی واپسی، بحالی اور آبادکاری کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ دستیاب وسائل سے ترجیحی بنیادوں پرآئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے ماحول ساز گار بنانا ہوگا۔ بنیادی شہری سہولیات کے ساتھ روزگار کی فراہمی، زراعت،صحت اور تعلیم کے شعبوں کی بہتری پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ حکومت ضم اضلاع کو خصوصی توجہ کا علاقہ قرار دے کر اس کیلئے فنڈز کی فراہمی کا بندوبست بھی کرسکتی ہے۔ قابل تقسیم قومی محاصل میں صوبوں کو دیئے جانے والے حصے کا پانچ فیصد اگر وفاقی حکومت چند سالوں کیلئے خود وصول کرکے قبائلی علاقوں پر خرچ کرے تو ان علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل تیز کیا جاسکتا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام رہنے والے قبائلی علاقوں کے لئے اب تک جاری کئے گئے ترقیاتی فنڈزکا حساب بھی لینا ضروری ہے۔