حرف ِراز: اِجتماعی ذمہ داری

 جتنے منہ اتنی باتیں۔ کورونا وبا سے ممکنہ بچاؤ سے متعلق اِحتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے پاس اپنے اِس غیر محتاط عمل کی کوئی دلیل اور جواز تو نہیں ہوتا لیکن اُن کے پاس کوورنا وبا کے درجنوں علاج (گھریلو ٹوٹکے) اور ایسی کہانیاں ضرور ہوتی ہیں جن کا اختتام اِس بات پر ہوتا ہے کہ کورونا وبا ایک نہایت ہی سوچی سمجھی سازش ہے۔ ویسے بھی اگر پاکستانیوں اور بالخصوص اہل پشاور کا مزاج یہ ہے کہ انہیں ہر چیز مشکوک دکھائی دیتی ہے بھلے ہی اُس سے جزوی یا کلی متاثر بھی ہوں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور کا کوئی گھر‘ محلہ یا علاقہ ایسا نہیں جہاں کورونا وبا سے اموات نہ ہوئی ہوں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن کہاوت ہے کہ جہاں آگ جلتی ہے وہیں تپش محسوس ہوتی ہے۔ جن گھرانوں کے اپنے پیارے کورونا وبا کے سبب زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں یا اِس مرض سے بچھڑ چکے ہیں اُن میں سے اکثر نے اُن کی پہلی برسی بھی منا لی ہے لیکن اِن سبھی واقعات (مثالوں) سے خاطرخواہ عبرت حاصل نہیں کی جا رہی!گردوپیش میں ایسے کئی کردار مل جائیں گے جو ’کورونا وبا‘ کی مختلف حالتوں اُر اِس بیماری کا توڑ بطور ماہر (اسپشلسٹ) دیں گے۔ دوسری قسم کے ماہرین وہ ہیں جو سوشل میڈیا وسائل (پلیٹ فارمز) کے ذریعے کورونا وبا سے متعلق ایسی غیرمصدقہ معلومات پھیلاتے ہیں‘ جن سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت سے سفر شروع کرنے والی ایک ویڈیو اِن دنوں پشاور کے واٹس ایپ گروپوں میں بھی دیکھی اور سنی جا رہی ہے بلکہ ہر دن اِسے کوئی نہ کوئی شخص نئے پیغام یا بلاتبصرہ اِسے شیئر (share) کر رہا ہوتا ہے جس میں کورونا وبا سے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے والا اور اِس وبا کا مخالف ایک شخص دعویٰ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ ”کورونا کی عالمی وبا روکنے کیلئے میڈیکل سائنس (علاج معالجے کی موجودہ) حکمت عملی سراسر غلط ہے۔“ کورونا وبا حقیقت ہے اور اِس حقیقت کی اپنے درمیان موجودگی کا جس قدر جلد اعتراف کیا جائے گا اُتنا ہی بہتر ہو گا۔ المیہ ہے کہ اِس ’وبائی ہنگامی دور (میڈیکل ایمرجنسی)‘ سے معالجین کی ایک خاص تعداد مالی فائدہ اُٹھا رہی ہے‘ جو مریضوں کو ایسی غیرضروری ادویات تجویز کرتے ہیں جن کا تعلق قوت ہاضمہ کی بہتری سے ہوتا ہے اور اکثر معالجین نفسیاتی دباؤ کی کمی‘ سکون آور‘ نیند آور ادویات دیتے ہیں‘ جو اپنی جگہ خطرناک ہیں کیونکہ ہمارے ہاں عمومی رویئے یہ ہیں کہ ایک بار کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنے والوں کی اکثریت دوبارہ اُس ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتی یا کسی بھی ڈاکٹر کے پاس اُس وقت تک نہیں جاتی جب تک وہ کسی بیماری کی شدت سے انتہائی علیل نہیں ہو جاتے اور اُنہیں سہارا دیکر یا اُٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لیجایا جاتا ہے۔ اِس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ کسی مریض کو دی گئی دوا ایک خاص مدت (دورانئے) کیلئے ہوتی ہے لیکن اُس کا مسلسل استعمال کیا جاتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر افراد کو بھی وہی دوا استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک عمل ہے جس سے انسانی جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ضروری نہیں کہ جو دوا آپ کو بنا معالج لینے کا مشورہ دیا جا رہا ہے وہ آپ کی ضرورت یا آپ کے جسم کے موافق بھی ہو۔ طبی (ایلوپیتھی) ہوں یا یونانی (حکیمی) اور ہومیوپیتھک ادویات‘ اِن میں سے کسی بھی دوا کو ازخود نہیں لینا چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ گلی کی نکڑ یا بازار میں ادویہ فروش (میڈیسن شاپ) سے ادویات بنا ڈاکٹری نسخے خرید کر استعمال نہیں کرنی چاہیئں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر معالج آپ کو خون کا تجزیہ یا الٹراساؤنڈ‘ ایم آر آئی‘ خاص نوعیت کے ڈیجیٹل ایکسرے کروانے کا مشورہ دے تو اِسے جا بجا کھلی لیبارٹریز سے نہ کروائیں بلکہ قومی سطح پر کام کرنے والی مستند لیبارٹریز سے کروائیں جہاں قیمت کچھ زیادہ ضرور ہوگی لیکن آپ کو ملنے والا نتیجہ درست ہونے کے زیادہ قریب ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ اِسی نتیجے کی بنیاد پر کسی مریض کو ادویات تجویز کی جاتی ہیں اور اگر ٹیسٹ غلط ہوگا تو یقینا اَدویات بھی مؤثر ثابت نہیں ہوں گی بلکہ کچھ معاملات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کریں گی۔کورونا وبا اجتماعی ذمہ داری ہے اور اِس اجتماعی ذمہ داری سے عہدہ برآء ہونے کیلئے ضروری ہے کہ نہ صرف بیماری سے محفوظ رہنے کیلئے ذمہ دارانہ (محتاط) طرزعمل کا مظاہرہ کیا جائے بلکہ دوسروں تک غلط معلومات پہنچانے سے بھی گریز کیا جائے۔ گھریلو ٹوٹکے آزمانے اور ازخود ادویات تجویز کرنے سے گریز کیا جائے۔ گلی کوچوں میں بیٹھے نیم حکیم یا غیرمستند معالجین و عمومی علاج گاہوں کی بجائے مستند معالجین (اسپشلسٹ ڈاکٹروں) سے رجوع کیا جائے‘ جن کی معائنہ فیس کچھ زیادہ ضرور ہوتی ہے لیکن اُن کے علاج سے اگر کسی مریض کو افاقہ نہ ہو تو مرض بڑھنے جیسا مزید نقصان بھی نہیں ہوگا۔ دو باتیں لائق توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ انسانی جان قیمتی ہے اور دوسرا یہ کہ بیماریاں معمولات زندگی کا حصہ ہیں جنہیں اعصاب پر سوار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اِن کا علاج اور اِن سے بچاؤ‘ اِن کی شدت میں کمی اور علاج معالجے جیسے اختیاری عمل (یکساں آسان) کو ضروری سمجھنا چاہئے۔