پشاور کہانی: بھول بھلیاں ۔۔۔

مارچ 2019ء: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کیں کہ ضلع پشاور کی ترقی کے لئے جامع حکمت عملی اور لائحہ (ماسٹر پلان) وضع کیا جائے جس کیلئے کاروباری و صنعتی طبقات‘ مختلف مکاتب فکر (سول سوسائٹی) اور عوام کے منتخب نمائندوں سے مشاورت کی جائے۔ اِس ’اعلیٰ سطحی اجلاس‘ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ”پشاور میں 100 بڑے سبزہ زار (میگا پارکس) تعمیر کئے جائیں گے جن میں سے 45 مقامات کے لئے قطعات اراضی (مقامات) کی نشاندہی کر لی گئی ہے۔“
اگست 2019ء: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیرصدارت اجلاس میں ہدایات جاری کی گئیں کہ پشاور میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسیئ آب کے نظام سے متعلق ’طویل المعیادی منصوبہ بندی‘ کی جائے اور ’مؤثر حکمت عملی تشکیل دی جائے تاکہ ترجیحی بنیادوں پر اہل پشاور کو پینے کے صاف پانی کی وافر فراہمی اور بلاتعطل نکاسیئ آب کو ممکن بنایا جا سکے۔ اجلاس میں کمشنر پشاور بھی موجود تھے جنہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ’پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ اور ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ کی مشاورت سے آئندہ ماہ (ستمبر 2019ء) تک لائحہ عمل ترتیب دیدیا جائے گا اور اِن دونوں کاموں (پینے کے صاف پانی کی وافر فراہمی اور نکاسیئ آب کے بلاتعطل نظام) کے لئے مالی وسائل مختص کئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ محمود خان چاہتے ہیں کہ پشاور کو ایک مثالی صوبائی دارالحکومت بنایا جائے اور اِس مقصد و خواہش کی تکمیل کا اظہار اکثر کرتے ہیں۔
جنوری 2020ء: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ’احیائے پشاور (Revival Plan)‘ کے نام سے کثیر الجہتی حکمت عملی کا اعلان کیا جس کے تحت سیاحتی ترقی‘ آمدورفت کے وسائل (انفراسٹکچر) اور سہولیات میں اضافہ‘ اقتصادی بہتری اور فن و ثقافت جیسے شعبوں کی ترقی سے متعلق ترجیحات کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ اِس مقصد کیلئے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور صائب الرائے افراد پر مشتمل الگ الگ کمیٹیاں بنائی گئیں اور تب (جنوری دوہزاربیس) سے آج (مئی دوہزار اکیس) تک حسب وعدہ ’انقلابی تبدیلیاں‘ دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔ حالات جوں کے توں دگرگوں ہیں۔ ضلع پشاور کی تمام یونین کونسلوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست نہیں ہوسکا اور جہاں حکومت کی جانب سے پانی فراہم کیا جا بھی رہاہے تو اُس کا معیار اور مقدار دونوں سے متعلق مقامی افراد تسلی کا اظہار نہیں کر رہے۔ یہی صورتحال نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے تلف کرنے کی بھی ہے کہ صفائی جیسی بنیادی سہولت میں حسب آبادی سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ایک سے بڑھ کر ایک بہترین اور پرکشش ناموں سے حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں اور ماضی میں ہوئے اجلاسوں اور حکمت عملیوں کو دفن کر دیا جاتا ہے۔
پشاور شہر سے نکاسیئ آب کا نظام ’شاہی کٹھے‘ پر منحصر ہے جو 1839ء سے 1842ء کے درمیان (سکھ دور) میں تعمیر کیا گیا اور تب سے آج تک اِس کی حسب ضرورت کشادگی اور توسیع تو بہت دور کی بات مکمل صفائی بھی نہیں ہو سکی ہے کیونکہ مختلف ادوار میں شاہی کٹھے پر تجاوزات قائم کی گئیں اور اِن تجاوزات میں کثیرالمنزلہ کمرشل عمارتیں‘ دکانیں‘ مساجد اور سڑکیں تعمیر کرکے نالے کو مکمل ڈھانپ دیا گیا ہے۔ اندرون شہر سے شروع ہونے والے شاہی کٹھے کے صرف چند ایک حصے ہی کھلے ہیں‘ جہاں سے فن تعمیر اور ترتیب و طریقہئ کار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی زمانے میں جبکہ پشاور کی آبادی چند ہزار تھی اِس منصوبے کی اہمیت کیا رہی ہوگی اور آج بھی اگر شاہی کٹھے پر موجود 400 سے زائد تجاوزات ختم کرنے میں مصلحت سے کام نہ لیا جائے تو اِس نالے کی توسیع سے اندرون شہر سے ملحقہ علاقوں کی نکاسیئ آب کا مسئلہ بھی مستقل بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے جس سے پشاور کے نہری نظام پر دباؤ میں کمی آئے گی جو نکاسیئ آب کا نالہ بن چکا ہے اور اِس کی وجہ سے زرعی مقاصد (آبپاشی) کیلئے فراہم ہونے والا کیمیائی مادوں سے زہریلا اور آلودہ پانی فصلات کو دیا جا رہا ہے جس سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ صوبائی حکومت  نے ’تاریخی شاہی کٹھے‘ کی بحالی کیلئے مختلف حکومتی اداروں (ڈبلیو ایس ایس پی‘ ٹاؤن ون‘ ضلعی بلدیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ) پر مبنی کمیٹی بنائی جس کی تین ماہ کے دوران کارکردگی یہ ہے کہ کمیٹی کا ایک اجلاس تک نہیں منعقد ہو سکا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو اِس غیرذمہ دارانہ اور غیرسنجیدہ طرزعمل کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے کیونکہ اگر اُن کے احکامات پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہوتا تو ’احیائے پشاور‘ ہو یا کسی بھی دوسرے دلکش نام سے حکمت عملی اِس کی اہمیت و افادیت باقی نہیں رہے گی۔
پشاور بھول بھلیوں میں گم ہو چکا ہے۔ شہر اور بیرون شہر‘ مضافات اور دیہی علاقے‘ جدید اور قدیم‘ گنجان آباد علاقے اور نئی بستیاں ہر ایک میں مسائل کی نوعیت اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر مبنی کہانی ایک جیسی ہے۔ عام آدمی (اہل پشاور) کے نکتہئ نظر سے یہ صورتحال دو طریقوں سے پریشان کن ہے ایک تو یہ بنیادی سہولیات میسر نہیں اور دوسرا بنیادی سہولیات کی فراہمی پر اربوں روپے خرچ ہونے اور ایک سے زیادہ حکومتی اداروں کی موجودگی کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ ترقیاتی عمل سے زیادہ مالی وسائل غیرترقیاتی اخراجات (ملازمین کی تنخواہوں‘ مراعات اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ طرز حکمرانی کی نذر ہو رہے ہیں!