قہر درویش بر جان درویش 

 خبر آئی ہے کہ فارمی مرغیوں میں جگر اور یرقان کی بیماری کا شدید حملہ ہوا ہے جس سے روزانہ ہزاروں مرغیاں مرنے لگی ہیں۔ مارکیٹ میں مرغیوں کی ادویات کی بھی شدید قلت پیدا ہوگئی۔اس بیماری کی روک تھام کیلیے انسانوں میں پیلے یرقان میں استعمال ہونے والی ادویات مرغیوں کیلئے بھی استعمال کی جارہی تھیں بیماری کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہ ادویات بھی اچانک غائب ہو گئیں اور جن دکانوں سے یہ ادویات ملتی بھی ہیں تو اس کی دو تین سو فیصد زائد قیمت وصول کی جارہی ہے۔ ادویات کا کاروبارکرنے والوں کے وارے نیارے ہو گئے مرغیوں کی پیداوار میں کمی کے باعث اور رمضان میں گوشت کے زیادہ استعمال کی وجہ سے مرغی کا گوشت عام آدمی کی پہنچ سے بھی باہر ہوگیا اور مرغی کے گوشت کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 295روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔بتایا جاتا ہے کہ نقصان سے بچنے کیلئے بیمار مرغیوں کا گوشت دھڑلے سے مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے جس سے انسانی صحت کو نئے خطرات درپیش ہیں۔بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے مرغی کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کرکے ماہ صیام میں روزہ داروں کو تڑپایا تھا۔ وہ اب خود تڑپ رہے ہیں اور ادویات فروشوں کی صورت میں انہیں مزید تڑپانے والے بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ انسان جو کچھ بوتا ہے اسی کی فصل کاٹتا ہے یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آپ نے مکئی کے بیج بوئے اور گندم کی فصل اگ آئی۔ یا گندم کی بوائی کی تو فصل آلو کی صورت میں حاصل ہوئی۔ اللہ کی مخلوق کو اپنے ذاتی مفاد کیلئے جو لوگ تکلیف پہنچاتے ہیں اس مظلوم مخلوق کا پیدا کرنے والا ظالموں سے حساب ضرور لیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام میں غیر مقبول بنانے کیلئے تمام مافیاز متحرک ہوگئی ہیں۔کوئی چینی کی قیمت بڑھاتا ہے تو کوئی گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافہ کرتا ہے کوئی گھی اور کوکنگ آئل مہنگا کرتا ہے تو پھل اور سبزی فروش بھی دام بڑھادیتے ہیں جب کوئی پوچھ گچھ نہیں ہورہی تو قصائیوں نے بھی گاہکوں کی چمڑی ادھیڑنے کیلئے چھریاں تیز کردیں۔روزمرہ ضرورت کی کسی نہ کسی چیز کی قیمت ہر روزبڑھتی ہے۔ انتظامیہ بھی نرخنامے جاری کرکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے۔ سرکاری نرخنامہ کے مطابق چھوٹے گوشت کی قیمت 600اور بڑے کی 350روپے مقرر ہے جبکہ بازار میں بڑا گوشت 650اور چھوٹا گوشت 1200روپے کلو فروخت ہوتا ہے۔ آر ٹی اے کی طرف سے ٹرانسپورٹ گاڑیوں کا جو کرایہ ہر مہینے بلاناغہ جاری کیا جاتا ہے وہ 1970کے عشرے میں کسی نے دفتر سے باہر نکل کر بنایاتھا۔ اس کے بعد محکمہ ٹرانسپورٹ کو باہر نکلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور چالیس پچاس سال پرانا کرایہ نامہ آج بھی ہر مہینے جاری کیاجاتا ہے۔۔ سرکاری نرخناموں سے گاؤں کا ایک واقعہ یاد آیا۔ عید کے موقع پر گاؤں میں نوجوان انڈے لڑایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انڈے لڑانے کے دوران کھلاڑیوں میں لڑائی چھڑ گئی۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کرانے کے بعد تصادم کی وجہ پوچھی تو جس کا انڈہ ٹوٹا تھا اس نے بتایا کہ اسے انڈہ توڑے جانے کا دکھ نہیں ہوا تھا۔ مگر میرا انڈہ توڑنے کے بعد اس نے اپنے دوستوں کو آنکھ ماری جسے دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا۔ یہی حال آج عوام کا بھی سرکاری نرخنامہ دیکھ کر ہوتا ہے۔ مگر وہ لڑیں تو کس سے لڑیں۔