عرض حال ہے کہ …… ”خیبرپختونخوا نے ’احیائے پشاور‘ کے نام (عنوان) سے جس کثیرالجہتی حکمت عملی کا اعلان (جنوری دوہزاربیس) کیا تھا اُس پر عمل درآمد خاطرخواہ تیزرفتاری اور ژرف نگاہی (باریک بینی) سے نہیں ہو رہا۔“ اِس نتیجہئ خیال کا ثبوت (اندازہ) 2 باتوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ پہلا لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ احیائے پشاور کے سلسلے میں غوروخوض اور کام کاج کی رفتار کا جائزہ لینے کے اجلاس کئی مہینوں کے وقفے سے منعقد ہوتے ہیں جبکہ اصولاً یہ اجلاس ہر ہفتے منعقد ہونے چاہیئں اور احیائے پشاور کا خوشی خوشی حصہ بن کر ذاتی تشہیر کروانے والوں کو برسرزمین حقائق کا نوٹس لینا چاہئے کہ اب تک احیائے پشاور کے تحت جو (مبینہ) ’کارہائے نمایاں‘ کئے گئے ہیں‘ اُن کی پائیداری اور معیار کا بھی دور دور تک نام و نشان نہیں۔ اِس سلسلے میں پشاور کے درودیوار پر اشتہارات و اعلانات کی لکھائی (وال چاکنگ) کا جاری عمل خصوصی توجہ چاہتا ہے کیونکہ جن مختلف اداروں کو ’وال چاکنگ‘ سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے وال چاکنگ کے خلاف صفائی مہم چلائی گئی تھی وہ ناکام ثابت ہوئی ہے اور شہر کے طول و عرض میں وال چاکنگ کا سلسلہ جس رفتار سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی اُس سے زیادہ تیزی سے جاری ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور میں قوانین و قواعد شکنی آسان ترین عمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہری زندگی کا حسن (خوبصورتی) اور کاروباری مفادات میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور ایک سے زائد حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں! ”منیرؔ اِس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے …… کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ (منیر نیازی)۔“پشاور میں ہو کا عالم ہے۔ کورونا وبا کے سبب ’آٹھ سے سولہ مئی‘ تجارتی مراکز اور بازار بند ہیں۔ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی پبلک ٹرانسپورٹ پر بندش کی وجہ سے بھی پشاور کی مصروف تین شاہراہیں سنسان ہیں لیکن اِس ’پرسکون منظرنامے‘ میں پشاور کی خوبصورتی کو داغدار کرنے والے سرگرم (فعال) ہیں جو ’وال چاکنگ‘ کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور کوئی اُن کا ہاتھ روکنے والا نہیں! یہ صورتحال اِس لحاظ سے بھی تشویشناک ہے کہ ’وال چاکنگ‘ کرنے والوں میں تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں‘ جن کا بنیادی کام عوام کے علم و شعور میں اضافہ کرنا ہوتا ہے لیکن یہی ادارے شہری قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں اور چونکہ اکثر اداروں کا تعلق سیاسی و مالی طور پر بااثر طبقات سے ہے اِس لئے واجبی تنبیہہ اور جرمانوں سے زیادہ اِن کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ بنا عوامی نمائندوں بلدیاتی نظام (ٹاؤن ون‘ ٹاؤن ٹو‘ ٹاؤن تھری‘ ٹاؤن فور اور ضلعی حکومت) کے ملازمین جو مختلف یونین کونسلوں میں تعینات ہیں‘ اُنہیں گردوپیش پر نظر رکھنے کی ہدایات جاری کی جائیں اور وال چاکنگ سمیت کوڑا کرکٹ غیرمقررہ مقامات پر پھینکنے کی فوری اطلاع ’ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے مرکزی کنٹرول روم‘ کو دینے کا پابند بنایا جائے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب وہ یونین کونسل اہلکاروں سے کام نہیں لیں گے تو اُن کے خالی دماغ اور فارغ اوقات ادارہ جاتی سیاست (یونین بازی) کی نذر ہو جائیں گے جس کے تخریبی پہلو تعمیر کے مقابلے شمار میں زیادہ ہیں۔ پشاور کا مسئلہ صرف وال چاکنگ ہی نہیں بلکہ تجاوزات بھی ہیں جنہیں ختم کرنے کی کوششیں جس تیزی اور جن بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ کی جاتی ہیں یہ تجاوزات اُسی تیزی کے ساتھ دوبارہ قائم ہو جاتی ہیں۔ صرف ایک مثال سے اِس صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے کہ یونین کونسل گنج اور یونین کونسل کریم پورہ کے سنگم پر واقع پشاور کی سرتاج عمارت ’گورگٹھڑی‘ جسے پاکستان کے پہلے ’آرکیالوجیکل پارک‘ ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے اور جہاں سے پشاور کی تاریخ و ثقافت کے ماضی سے جڑے رشتوں کی تصدیق و ثبوت حاصل ہوئے ہیں اُس کے اطراف میں سرکاری اراضی (شاہراہ کے ساتھ پٹی پر) تجاوزات قائم ہیں۔ گزشتہ ماہ ’ٹاؤن ون‘ کے اہلکاروں نے بھاری مشینری اور متعلقہ پولیس تھانے (کوتوالی‘ سی ڈویژن) کی مدد سے جن تجاوزات کو مسمار کیا تھا‘ گورگٹھڑی کے جنوب میں محلہ تیلیان اور کوچہ بی بی ذکری کے سامنے وہ تجاوزات پھر سے قائم ہو گئی ہیں کیونکہ ’سیّد ضیاء جعفری روڈ‘ پر کی جانے والی مذکورہ کاروائی نہ تو مکمل کی گئی اور نہ ہی اِس میں تمام تجاوزات کو ختم کیا گیا بلکہ صرف ایک دکان کا دروازہ (شٹر) اور چند فٹ دیواریں مسمار کر دی گئیں۔ ذہن نشین رہے کہ دکان کا بڑا حصہ اور اُس کے آگے دیواریں شاہراہ کے اُس حصے پر تعمیر کی گئیں تھیں جو حکومت کی ملکیت ہے اور صرف یہی ایک دکان نہیں بلکہ مسجد گنج علی خان تک پانچ سو میٹر کی پٹی پر ایک ارب روپے سے زائد کی اراضی پر درجنوں تجاوزات قائم ہیں‘ جنہیں ابتدا میں پھولوں کی کیاریاں لگا کر قبضہ کیا جاتا ہے پھر راتوں رات اِن کیاریوں کو دیواروں اور چھت سے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور پھر کیاریوں کی صورت قبضہ کی گئی اراضی کو ذاتی جائیداد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے تجاوزات قائم اور پھر یہی تجاوزات مسمار ہوتی ہیں‘ قومی احتساب بیورو (نیب) حکام ’ٹاؤن ون انتظامیہ‘ کے فیصلہ سازوں کی مالی حیثیت میں تبدیلی کے بارے میں تحقیقات کریں اِس لئے ’احیائے پشاور (حکمت عملی)‘ میں صرف فیصلے (احکامات) ہی صادر نہ کئے جائیں بلکہ اِن فیصلوں پر ’کماحقہ عمل درآمد‘ کا جائزہ بھی لیا جائے اوروہ چند ایک سرکاری ملازمین اگر ناجائز کمائی سے توبہ تائب نہیں ہوتے‘ اپنی غلطیوں (جرائم) کا اعتراف نہیں کرتے تو اُن سے مفاہمت (این آر او) کرنے کی بجائے اُنہیں پشاور کی خدمات سے الگ کر دیا جائے۔