خیبرپختونخوا میں سرکاری علاج گاہوں (ہسپتالوں) کا قبلہ درست کرنے کیلئے جو اصلاحات کی گئیں اُنہیں ’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیویشنز ایکٹ (ایم ٹی آئی)‘ نامی قانون کے ذریعے تحفظ دیا گیا جو سال 2015ء سے لاگو ہے۔ مذکورہ ’ایم ٹی آئی ایکٹ‘ کے خلاف اعلیٰ و ادنیٰ عہدوں پر خدمات سرانجام دینے والے معالجین کا سب سے بڑا (بنیادی) اعتراض یہ ہے کہ اِس میں دوران ملازمت اور بعدملازمت ڈاکٹروں کو حاصل مراعات ختم کی گئیں ہیں اور ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے جس میں ڈاکٹروں کیلئے سرکاری ملازمت میں کشش ختم ہو گئی ہے گزشتہ 3 برس کے دوران 24 خصوصی معالجین (کنسلٹنٹس) نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور سے مستعفی ہو کر نجی ہسپتالوں میں ملازمت کر لی یا پھر وہ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اِن چوبیس معالجین کے علاوہ 36 جونیئر ڈاکٹروں نے بھی یہ کہتے ہوئے استعفے دیئے ہیں کہ 1: سرکاری ہسپتال کا ماحول ٹھیک نہیں۔ 2: ملازمتی ترقی کے امکانات کم ہیں جبکہ اِن دونوں الزامات کی ’لیڈی ریڈنگ ہسپتال انتظامیہ‘ کی جانب سے تردید سامنے آئی ہے۔ انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن کنسلٹنٹ معالجین نے محکمانہ ترقیاں نہ ہونے کے جواز پر استعفیٰ دیا ہے وہ ترقی کے معیار پر کم تعلیمی قابلیت اور کم تجربے کی وجہ سے پورا نہیں اُترتے تھے جبکہ ترقی کا پیمانہ صرف یہ نہیں کہ کوئی ڈاکٹر کسی عہدے پر کتنے عرصے سے تعینات ہے بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ڈاکٹروں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ طبی موضوعات کے حوالے سے اُن کے تحقیقی مقالے (ریسرچ پیپرز) عالمی اشاعتوں میں شائع ہوں۔ جن معالجین نے طب کے شعبے میں تحقیق اور اپنی تحقیق کو شائع کروانے جیسی ضرورت پوری نہیں کی اُنہیں ترقیاں نہیں دی گئیں۔صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ہسپتال سے ماہر معالجین کے مستعفی ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اِس کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہسپتال سے یومیہ (اُو پی ڈی) رجوع کرنے والے مریضوں کی تعداد 5 ہزار ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں علاج معالجے کی سہولیات اور جملہ وسائل کو ’کورونا وبا‘ سے متاثرہ مریضوں کیلئے مختص کیا گیا تو صرف پشاور نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع سے بھی مریضوں کا رخ ’لیڈی ریڈنگ ہسپتال‘ کی طرف ہونے لگا لیکن اِس موقع پر ڈاکٹروں کے مستعفی ہونے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کورونا وبا کے خصوصی شعبے میں تعینات ڈاکٹر بھی شامل تھے حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان تنازعات کا منفی اثر کسی بھی صورت مریضوں کو منتقل نہیں ہونا چاہئے کسی بیماری کا مستقل علاج اگر تکلیف دہ جراحت کی صورت ایک بار کرنا پڑے تو اِس میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ سرکاری علاج گاہوں کو جس نظم و ضبط اور جس معیار کی ضرورت ہے اُسے قائم و برقرار رکھنے کے لئے مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مزید سخت فیصلوں اور ذاتی مفادات کے اسیر کرداروں سے اداروں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔