اب جبکہ صوبائی حکومت کے قیام کو پونے تین سال ہوچکے ہیں اورلے دے کے حکومت کے آخری دوسال ہی باقی رہ گئے ہیں تویقینا اس امر کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کرہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے تمام انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لیے کمرکس لے اس وقت صوبہ میں اس کی انتہائی مستحکم اور طاقتور حکومت قائم ہے اسے قانون سازی کیلئے بھی کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ایوان میں اتحادیوں کے ساتھ اسے دوتہائی اکثریت حاصل ہے اس کو اپنے ایجنڈ ے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی مشکل درپیش نہیں البتہ اس کااصل مسئلہ گورننس کاہے سرکاری اداروں کوزیادہ سے زیادہ اندازمیں فعال اورمتحرک کرکے ہی آخر ی دوسال میں اہداف کے حصول کاخواب شرمندۂ تعبیر کیاجاسکتاہے ویسے بھی پی ٹی آئی کو یہ یاد رکھناچاہئے کہ خیبرپختونخوا کی وجہ سے ہی اسے مرکز میں حکومت کرنے کاموقع ملاہے جس کااعتراف بارہا وزیر اعظم عمران خان بھی کرتے رہے ہیں وہ خودتسلیم کرتے ہیں کہ پختونخوا میں حکومت کرکے ہم نے ڈیلیور کیااسی لیے ہمیں مرکزمیں حکومت سازی کاموقع ملا اب اس حقیقت کے تناظر میں صوبائی حکومت پربھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور یہ ذمہ پوری کرنے کیلئے سرکاری اداروں کو اب دوڑانے کی حکمت عملی پر عمل کرنا ضروری ہوچکاہے اور غالبا اسی کاادراک کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محمود خان نے غیر روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے باہر نکلنے کافیصلہ کیااوراس وقت ان کی طرف سے چھاپہ مارپالیسی اختیار کی جاچکی ہے جس کے تحت وزیر اعلیٰ بغیر کسی پروٹوکول کے اچانک نکل پڑتے ہیں اور کسی کو پتہ نہیں ہوتاکہ ان کی منزل کیاہوگی اب تک وہ موٹروے ٹول پلازہ،مختلف تھانوں،پشاور سنٹرل جیل،رمضان بازاروں کے اچانک دورے کرچکے ہیں اس دوران وہ بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر موقع پر اصلاح احوال اورتحقیقات کے اعلانات بھی کرچکے ہیں موٹروے ٹول پلازے پرجس طرح ایکسائز والوں نے ناکہ لگا کر ”کمائی مہم“شروع کی ہوئی تھی وزیرا علیٰ محمود خان اس کے خلاف پہلے بھی ایکشن لے چکے تھے مگر سرکاری اہلکاربھلا اتنی آسانی سے کہاں مانتے ہیں چنانچہ دوسری بار بھی محمود خان نے ہی چھاپہ مارکر اسی جگہ ناکہ لگانے والوں کو رنگے ہاتھوں دھر لیا اور سب کو معطل کرنے کے احکامات جاری کردیئے اسی طرح انہوں نے بغیر پروٹوکول اچانک سنٹر جیل پشاور کا دورہ کیا انہوں نے جیل کے لنگر خانے کا معائنہ کرکے وہاں پر قیدیوں کیلئے تیار کئے جانے والے کھانوں کے معیار اور صفائی کی صورت حال کاجائزہ لیا وزیر اعلیٰ نے لنگر خانے میں صفائی کی ناقص صورت حال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لنگر خانے کے انچارج کو فوری طور پر رمعطل کرنے کے احکامات جاری کئے جبکہ ڈیوٹی پر موجود اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ جیل کو وارننگ دیتے ہوئے صفائی کی صورت حال بہتر بنانے کی ہدایت کی وزیر اعلیٰ نے جیل ہسپتال کا بھی دورہ کیا اور وہاں پر قیدیوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کا بھی جائزہ لیا قیدیوں کو فراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے اسے بہتربنانے کی ہدایت کی اس موقع پر انہوں نے قیدیوں سے ملاقات کی اور ان سے جیل میں فراہم کی جانے والی سہولیات کے بارے میں معلومات حاصل کئیں بعض قیدیوں نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ وہ اپنی مدت قید پوری کر چکے ہیں لیکن جرمانے کی رقم ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے انہیں رہائی نہیں مل رہی جس پر وزیر اعلیٰ نے ایسے تمام قیدیوں کے جرمانے اپنی جیب سے ادا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ جیل کو ایسے تمام قیدیوں کی تفصیلات طلب کرنے کی ہدایت کی وزیر اعلیٰ نے جیل حکام کو ہدایت کی کہ رمضان کے مہینے میں قیدیوں کو سحری وافطاری میں معیاری اور صاف ستھرے کھانوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا پشاور سنٹرجیل کا اچانک دورہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا ا س سے جیل انتظامیہ کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس بھی ہوگا اور قیدیوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری وواگزاری بھی ممکن ہوگی،وزیر اعلیٰ خود بھی واضح کرچکے ہیں کہ ان کے مختلف اداروں اور محکموں پر اچانک چھاپوں کامقصد اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہے جہاں تک جیلوں کے معیار کا تعلق ہے تو یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ جیلوں کی کارکردگی درست نہیں جیلوں میں قیدیوں پر ظلم وستم کی داستانیں موجود ہیں جیلوں میں قیدیوں کو بنیادی حقوق تک میسر نہیں ترقی یافتہ ممالک میں جیلیں اصلاح خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں اور وہاں سے قیدی اپنی مدت پوری ہونے کے بعد معاشرہ کیلئے ہر لحاظ سے قابل فخر شہری بن کر نکلتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس کے برعکس ہورہا ہے ہماری جیلوں میں قیدیوں کو بندے کا بندہ کہا جاتا ہے یہ قیدیوں کیلئے ایک گھناؤنے جرم کے مترادف ہے انہیں کارآمد بنانے کیلئے جیلوں میں ایسی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جس سے قیدی معاشرے کا ایک قابل قدر حصہ بن سکیں، وزیراعلیٰ محمود خان کو صوبہ بھر کے جیلوں کا اسی طرح اچانک دورے تواتر سے کرنے چاہئیں اسی طرح گذشتہ روز تھانہ شرقی کے سامنے جس طرح سی سی پی او کے دورے موقع پر پولیس اہلکاروں نے سڑک کابیشترحصہ بند کیاہواتھا دورہ کیاتھا پروٹوکول اور تشہیرکاایک عمل تھا اسی وقت وزیراعلیٰ نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سی سی پی اوپرواضح کردیاکہ اس قسم کے نمائشی دورے اور چھاپے قابل قبول نہیں ہیں ظاہر ہے کہ صوبہ کاچیف ایگزیکٹو ایک ڈرائیور اور دوساتھیوں کے ساتھ بغیر پروٹوکول کے سرکاری اداروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے میدان میں ہے جبکہ سرکاری عمال اس معاملہ میں بھی پروٹوکو ل اور تشہیر کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں اس قسم کے دورے ہمیشہ بے فیض ہی رہتے ہیں اسی لیے اب وزیر اعلیٰ نے اس قسم کے دورے بند کرنے کی بھی ہدایت کی ہے وزیر اعلیٰ نے اب جب چھاپہ مار مہم شروع کرہی دی ہے تو اس کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی ضروری ہے اسی قسم کے چھاپو ں اور اچانک معائنوں سے ہی سرکاری حکام اوراداروں کاقبلہ درست کرنے کی امید رکھی جاسکتی ہے جو اس وقت صوبائی حکومت کیلئے ازبس ضروری ہے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ اب صوبائی وزراء کو بھی میدان میں آناچاہئے تاکہ ان کے اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی مزید بہتر بنائی جاسکے گذشتہ کچھ عرصہ سے محکمہ پولیس کے عام لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں آنے کے بعد سے اس امر کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ پولیس کاقبلہ درست کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں امیدرکھی جانی چاہئے کہ وزیر اعلیٰ کے تھانو ں کے اچانک دوروں کاسلسلہ اسی طرح جاری رہے گا کیونکہ اس وقت صرف وزیر اعلیٰ ہی پولیس کاقبلہ درست کرسکتے ہیں اور اگر وہ اب اس سلسلہ میں میدان میں آچکے ہیں تو یہ امید ہے کہ اب کچھ نہ کچھ بہتری ضرورممکن ہوسکے گی۔