پشاور کہانی: (باقی ماندہ) فصیل ِشہر۔۔۔۔

”کاش سمجھیں زبان والے بھی …… بے زباں کی دعا ہے خاموشی۔“ پشاور خاموش کی زباں میں دعا گو ہے۔ بصورت خبر عوامی حلقوں نے متعلقہ حکام (صوبائی حکومت‘ ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر)‘ ضلعی (بلدیاتی) حکومت‘ ٹاؤن ون اور آثار قدیمہ کے فیصلہ سازوں) سے مطالبہ کیا ہے کہ ’سٹی سرکلر روڈ‘ کے کنارے (رامداس چوک تا ڈبگری گیٹ) کے درمیان فصیل شہر کے باقی ماندہ ٹکڑے کو بچایا جائے جس کی بتدریج مسماری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اگر ضلعی حکومت خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئی تو تاریخی فصیل کا یہ حصہ بہت جلد قصہ پارینہ بن جائے گا۔“ فصیل شہر کے باقی ماندہ حصے جہاں کہیں بھی ہیں اُن کے سروں پر خطرات منڈلا رہے ہیں کیونکہ پشاور کے ماضی و حال اور بالخصوص یہاں کے آثار قدیمہ سے جڑے نشانات و مفادات کے محافظ (متعلقہ) ادارے بدقسمتی سے خاطرخواہ حساسیت‘ اپنائیت اور پشاور سے دلی لگاؤ (جذبات) کا اظہار نہیں کر رہے۔ توجہ طلب ہے کہ 1830ء میں مٹی (گاڑھے) سے اُٹھائی گئی فصیل ِشہر کو پختہ اینٹوں کی دیواروں اور زیادہ مضبوط و بلند لکڑی کے چھوٹے بڑے دروازوں سے تبدیل کیا گیا تاکہ ماضی کے نقوش بھی زندہ رہیں اور درودیوار کی مقصدیت و افادیت بھی حاصل ہوتی رہے جو کہ یہ تھی کہ پشاور پر کسی بھی صورت حملہ آور ہونے اور یہاں جرائم پیشہ عناصر کی آمدورفت روکی جا سکے۔ برطانوی راج کے دوران اغیار نے جس انداز میں تاریخی نشانیوں کی ضرورت کا احساس کیا‘ وہ دردمندانہ سوچ وقت کے ساتھ کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ فصیل شہر جو پشاور کی تاریخ و ثقافت کا درخشاں باب ہے اور یہاں کے رہن سہن سے متعلق شواہد سے بھی متعلق ہے اُسے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرنا صرف وقتی نہیں بلکہ مستقبل کیلئے ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت پشاور کے سیاحتی کشش کا جس انداز میں ذکر اور سیاحتی ترقی کو جس انداز میں ’احیائے پشاور‘ نامی حکمت عملی کا حصہ بنایا گیا ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اُمید ہے کہ فصیل شہر سے چھیڑچھاڑ یا اِسے مسمار کرنے جیسے انتہائی اقدام کا گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سختی سے نوٹس لیں گے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے لاہور میں سینکڑوں ارب روپے کی سرکاری اراضی واگزار کرانے کا دعویٰ کیا ہے جسے مشعل راہ سمجھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا پرچم لئے تبدیلی کے علمبردار پشاور کی طرف بھی متوجہ ہوں جہاں کے وسائل و اثاثوں پر سیاسی و مالی بااثر طبقات مسلط ہیں! اِس صورتحال میں اگر فصیل ِشہر پناہ کے باقی ماندہ حصوں (نشانیوں) کو بچانے کیلئے سنجیدہ اور عملی اقدامات نہ کئے گئے تو خدانخواستہ فصیل شہر کا وجود اِس کے دروازوں کی صورت ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔  اِس متعلق چند سطروں پر مشتمل ایک مختصر خبر بنا تصویر (بارہ مئی‘ روزنامہ آج پشاور کے صفحہ دو) پر شائع ہوئی جس میں بنا نام لئے عوامی حلقوں کی جانب سے نہایت ہی اہم مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے اور صوبائی و ضلعی (بلدیاتی) حکومتوں کو متوجہ کرتے ہوئے مطالبہ ذکر ہے کہ ”شہر بھر میں فصیل شہر کو مسماری سے بچانے کیلئے ’بروقت اقدامات‘ کئے جائیں۔ پشاور کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں تاریخ و ثقافت کے جڑے اثاثوں کی حفاظت اور اُن کی بحالی کے لئے اقدامات و انتظامات کبھی بھی بروقت نہیں ہوتے بلکہ متعلقہ حکومتی ادارے بشمول محکمہئ آثار قدیمہ اُس وقت حرکت میں آتا ہے جب تاریخ سے جڑی تعمیرات مکمل طور پر مسمار کر دی جاتی ہیں یا پھر اُنہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں پشاور کے ضلعی اور اندرون شہر کی یونین کونسلوں پر مشتمل ’ٹاؤن ون‘ کے ناظم و دیگر فیصلہ سازوں نے فصیل شہر کو مسمار کرنے کو جانتے ہوئے بھی نظرانداز یعنی تجاہل عارفانہ اختیار کیا۔ صرف فصیل شہر اور دروازے ہی نہیں بلکہ پشاور کے شہر خموشاں (قبرستان) اور اُن سبھی تعمیرات کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے جو پشاور کے خلاف منظم سازش ہے کہ اِس شہر کے ماضی و ثقافت سے جڑی خوبیوں کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ فصیل شہر اثاثہ ہے اور اِس کا شمار ’آثار قدیمہ‘ میں ہوتا ہے‘ جس کی حفاظت سے متعلق الگ سے قانون و قواعد اُور اِن پر عمل درآمد کیلئے صوبائی ادارہ موجود  ہے اور اِس کی اہمیت و ضرورت کو قانونی نکتہئ نظر سے بھی دیکھتے ہوئے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ذہن نشین رہے کہ نومبر 2012ء میں محکمہئ بلدیات کی جانب سے باقی ماندہ فصیل شہر کو مبینہ طور پر بچانے کی ایک کوشش کی گئی جو درحقیقت بحالی کی بجائے صرف دروازوں کی تعمیرنو تھی اور یہ فیصل شہر کو مسمار کرنے اور اِس پر قبضے کو قانونی شکل دینے کی کوشش تھی‘ جس میں دروازوں کو اُن کے اصل مقامات سے آگے پیچھے بھی کیا گیا تاکہ اُن سے ملحقہ نجی اراضی کے مالکان کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ یعنی یہاں بھی خلوص نیت کی کمی دیکھنے میں آئی اور پشاور  کے ماضی کی بجائے ذاتی مفادات  کا تحفظ کیا گیا۔
 اِس ناتمام کوشش میں آثار قدیمہ کے ماہرین کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ قطعی طور پر مقصود یہ نہیں تھا کہ پشاور کے دروازے اپنی اصل حالت میں بحال ہوں۔ صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ روزوشب میں مصروف اہل پشاور کو احساس بھی نہیں کہ اُن کا کس قدر بڑا نقصان ہو چکا ہے! دل و دماغ کی آنکھیں کھول کر دیکھنا ہوگاکیونکہ یہ کوئی معمولی نقصان نہیں ماضی کے یہ نقوش اگر مٹ جائیں تو یہ صرف ایک دیوار نہیں بلکہ ایک دور کی نشانی ہے جس کی حفاظت کرنا ضروری ہے 
میری پہچان ہیں‘ تیرے در و دیوار کی خیر
میری جاں‘ میرے پشاور‘ میرے گلزار کی خیر