اسرائیل کی طرف سے رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے قبلہ اول پر حملے کے خلاف پورے عالم اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل نے غزہ کے علاقے میں ڈیڑھ سو مرتبہ بمباری کی ہے۔ سینکڑوں مکانات، سکولوں اور فیکٹریوں پر بم گرائے اب تک دس بچوں سمیت درجنوں فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اوراسرائیلی حملوں کو بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی اخلاقیات کے منافی قرار دیا ہے۔ او آئی سی اجلاس میں اسرائیلی کاروائیوں کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنے سے متعلق پاکستانی تجویز بھی منظور کی گئی ہے۔ دریں اثناء مسجد اقصی پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کیلئے ترکی کی میزبانی میں ہنگامی ورچوئل کانفرنس ہوئی۔جس میں فلسطین، پاکستان، افغانستان، اندونیشیااور ایران سمیت60 ممالک کے 100 سے زائد مندوبین نے شرکت کی کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین اور القدس پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ پاکستان بطورریاست اور بطور حکومت فلسطینی قوم کے ساتھ اپنا اخلاقی، سیاسی اور سفارتی تعاون و حمایت جاری رکھے گا۔ مسجد اقصی کی بیحرمتی اور نہتے فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ناقابل قبول ہیں۔ مسجد اقصی کی بیحرمتی اور بربریت کے واقعات کسی ایک مذہب یا قوم کی خلاف نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ عالم اسلام کا القدس کے ساتھ دینی، قلبی اور روحانی تعلق ہے۔قبلہ اول میں جمعۃ الوداع کے موقع پراسرائیل فوج کی طرف سے نمازیوں پر تشدد اور مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی کوشش یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے عرب ملکوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف دانشمندانہ ہے کہ جارحیت کی مذمت کرنا کافی نہیں۔ تمام اسلامی ملکوں کو فلسطین، کشمیر اور روہنگیا سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف مشترکہ آواز اٹھانی چاہئے۔ اور اگر مقدور ہو تو زور بازو سے جارحیت کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آج مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کی جتنی ضرورت ہے شاید اس سے پہلے اس کی اتنی ضرورت نہ رہی ہو۔ 1970 کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو لاہور میں جمع کرکے عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ آج عالم اسلام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر، برما، افغانستان، عراق، فلسطین، بوسنیا اور وسطی ایشیائی اسلامی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا سلوک کیا جارہا ہے۔ اور اسلامی ممالک ان واقعات کی مذمت سے ایک انچ آگے نہیں بڑھتے۔ اکثر اسلامی ممالک آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔قبلہ اول پر حملے کے بعد مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہئے۔ اگر آج بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگا۔ دیکھا جائے تو اس وقت مسلمان جہاں بھی ہیں وہ دنیاکے جس خطے میں بھی آباد ہے وہاں مصائب و تکالیف میں گھرے ہوئے ہیں۔سو سال پہلے شاعر مشرق نے مسلمانان ہند کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ”نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو۔تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔