تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پشاور صرف پرانا (قدیم) ہی نہیں بلکہ قدیم ترین ہے اور ایک زندہ تاریخی شہر جبکہ اِس عمر یا اِس سے کم عمر کئی شہر آج کھنڈرات کی صورت ملتے ہیں۔ پشاور کے ’زندہ تاریخی شہر‘ ہونے کا ثبوت یہاں کے زیرزمین دریافت ہونے والے خزانوں سے ملا ہے جو مختلف ادوار میں ہوئی کھدائیوں (محنت) کا نتیجہ ہے اور اِس دوران یہاں سے ملنے والے برتن‘ سکے‘ زیورات‘ ملبوسات‘ نقش و نگار (نوادرات) اور فن تعمیر کے نمونے کسی نہ کسی صورت میں ’سٹی میوزیم‘ کے نام سے خصوصی عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھے گئے ہیں۔ یہ عجائب گھر گورگٹھڑی میں واقع ہے اور یہاں صرف پشاور شہر کی تاریخ کو عہد بہ عہد نوادرات کی نمائش کی صورت بیان کیا گیا ہے۔ اہل پشاور کو اپنے اہل و عیال خصوصاً بچوں کے ہمراہ ’سٹی میوزیم‘ کی سیر کرنی چاہئے تاکہ ’پشاور شناسی‘ میں اِضافہ ہو اور وہ پشاور کہ جس پر بجا طور سے فخر ہونا چاہئے اور جس کی کماحقہ حفاظت کی ضرورت و اہمیت بھی اُسی صورت اُجاگر ہو گی جب اہل پشاور کو اپنے شہر کی تاریخ و ثقافت کے اُن خاص پہلوؤں سے شناسائی ہو گی جو صرف پاکستان یا بھارت ہی میں نہیں بلکہ پورے خطے میں منفرد ہیں۔ محکمہئ آثار قدیمہ نے تعلیمی اداروں کے طلبہ کیلئے سٹی میوزیم کی سیر کیلئے خصوصی حکمت عملی مرتب کی تھی جس کے تحت چند ماہ زور و شور سے کام ہوا لیکن یہ سلسلہ ذرائع ابلاغ میں تشہیری اہداف حاصل ہونے کے بعد اور کورونا وبا سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا۔پشاور دنیا کے اُن قدیم شہروں کی فہرست میں شامل ہے جو ہزاروں برس کی تاریخ میں کئی مرتبہ اجڑا اور بسا مگر پھر بھی زندہ ہے اور یہی پشاور کا کمال ہے کہ یہ زندہ بھی ہے اور باعث ِزندگی بھی ہے۔ پشاور جغرافیائی اعتبار سے الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر شمال مغربی حملہ آوروں کا پہلا پڑاؤ ہوتا تھا اور اِسے ہر دور میں قبیلوں اور تہذیبوں کا سنگم (مرکزی شہر) ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ پشاور کی وادی تین اطراف میں پہاڑوں کے حصار جبکہ اِن کے درمیان وسیع و عریض میدانی علاقے ہیں۔ قدیم زمانے میں ایسی صورتحال میں شہروں کی چار دیواری (حصار) بنایا جاتا تھا اور اِس فصیل میں حسب ضرورت دروازے بھی بنائے جاتے تھے جیسا کہ پشاور میں دکھائی دیتے ہیں اور اِن دروازوں کا الگ تشخص (تاریخی پس منظر) بھی ہے۔ اِس حوالے سے ایک ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ (تاریخ اشاعت تیرہ مئی دوہزاراکیس بعنوان ’باقی ماندہ فصیل ِشہر) میں چند خطرات کا ذکر کیا گیا لیکن فصیل ِشہر کے اُن دروازوں کا تفصیلی ذکر نہ ہو سکا جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے اور جن سے متعلق ’پشاور بچاؤ اور بحالی کی حکمت عملی‘ (احیائے پشاور) کی ذیل میں غوروخوض ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں لاہور (پنجاب کے دارالحکومت) کے تجربے سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے جہاں اندرون شہر کی تاریخ و ثقافت اور فن تعمیر کے حوالے سے ’والڈ سٹی اتھارٹی‘ قائم ہے۔
پشاور کے سولہ دروازوں (1: کابلی گیٹ‘ 2: آسامائی گیٹ‘ 3: کچہری گیٹ‘ 4: ریتی گیٹ‘ 5: رام پورہ گیٹ‘ 6: ہشت نگری گیٹ‘ 7: لاہوری گیٹ‘ 8: گنج گیٹ‘ 9: یکہ توت گیٹ‘ 10: کوہاٹی گیٹ‘ 11: سرکی گیٹ‘ 12: سردچاہ گیٹ‘ 13: آسامائی گیٹ‘ 14: بارزقاں دروازہ‘ 15: ڈبگری گیٹ اور 16: باجوڑی گیٹ) کا شمار و بیان معروف قصّہ خوانی بازار سے کیا جائے تو مقامی و غیرمقامی قارئین کی یاداشتیں منطقی ترتیب کے ساتھ تازہ ہو جائیں گی۔ قصّہ خوانی بازار کے آغاز پر ’کابلی دروازہ‘ ہے جو شہر کی مغربی سمت میں واقع ہے چونکہ اِس مقام سے ایک شاہراہ کابل (افغانستان کے دارالحکومت) کی طرف جاتی تھی اور اُس وقت افغانستان سے پشاور سفر کا آغاز یا اختتام اِسی مقام پر آ کر ہوتا جن کے لئے قصّہ خوانی اور اِس سے ملحقہ بازاروں میں قیام و طعام کی سہولیات کی چند ایک نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔ پشاور کی ثقافتی راہداری (گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر) بناتے ہوئے حکمت عملی میں شامل تھا کہ اِسے کابلی دروازے تک وسعت دی جائے گی لیکن مذکورہ راہداری پہلے ہی مرحلے پر ناکام تجربہ ثابت ہوئی ہے۔ کابلی دروازے کے بعد آسامائی دروازہ کابلی گیٹ سے شمال کی طرف ہے جس کے سامنے لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور قلعہ بالا حصار ہیں جبکہ اِس کے داخلی علاقوں میں صرافہ بازار اپنی نوعیت کا منفرد تجارتی مرکز ہے جہاں سونے چاندی کے زیوارت‘ ہیرے جواہرات‘ قیمتی و نیم قیمتی پتھر اور نوادرات ملتی ہیں۔ اِس دروازے سے ملحقہ اراضی پر ”آسامائی مندر“ ہوا کرتا تھا جو ہندوؤں کے شیو مہاراج کی چہیتی بیوی کے نام سے منسوب ہے۔ اُس کی موت کے بعد یہاں مندر قائم کیا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد اِس مندر کی بیشتر اراضی قبضہ کر کے منہدم کر دی گئی جبکہ کچھ حصے پر کشمیری مہاجر آباد ہوئے جو اِس کے مالک بن گئے اور یوں ایک نہایت ہی تاریخی اہمیت کا مقام تقسیم در تقسیم اور فروخت در فروخت ہو کر تحلیل ہو چکا ہے۔ آسامائی کے بعد ’کچہری دروازہ‘ ہے جسے سکھ دور میں ’ٹکسالی دروازہ‘ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اس مقام پر سکہ ڈھالنے کی ٹکسال ہوا کرتی تھی جہاں ”نانک شاہی“ سکہ ڈھلتا تھاکچہری دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر ’ریتی دروازہ‘ ہے جو لوہے اور دیگر دھاتوں سے بننے والی اشیا کا مرکزی بازار (منڈی) ہوا کرتی تھی۔ اِس سے آگے ’نواں (نیو) دروازہ (المعروف رام پورہ گیٹ) اگرچہ قدیم فصیل کے مستند دروازوں میں شامل نہیں لیکن سکھ عہد میں جب شہر پناہ کی مرمت کی گئی تو اس مقام پر ہندو آبادی تھی۔ مقامی ہندکووان اِسے ’نواں (نیا) دروازہ‘ کہنے لگے اور یہ دونوں نام رائج ہیں۔ رام پورہ بازار اجناس کی تھوک منڈی ہے‘ جس سے خیبرپختونخوا اور افغانستان اشیائے خوردونوش کی ترسیل ہوتی ہے۔ (جاری ہے)