پشاور کہانی: تاریخی دروازے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موضوع مسلسل ہے‘ توجہ طلب ہے کہ پشاور کی فیصل شہر کے باقی ماندہ آثار ختم ہو رہے ہیں اور صرف فصیل شہر ہی نہیں بلکہ اِس کے سولہ دروازے بھی اصل حالت میں بحالی کے منتظر ہیں۔ اِس سلسلے میں قبل ازیں (تیرہ اور سولہ مئی) تحریروں میں پشاور کے تعمیراتی اثاثوں اور خدوخال کا احاطہ کرنے کی طالب علمانہ کوشش کی گئی اور کابلی دروازے سے شروع کیا گیا سفر ہشتنگری دروازے مکمل کیا گیا۔ ’ہشت نگری دروازہ‘ پشاور کا معروف تجارتی مرکز ہے اور ایسا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کا واحد دروازہ ہے جو ’گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ‘ کے کنارے ہے جس کی وجہ سے دیگر شہروں سے آنے والے اِسی راستے اجناس کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ سنسکرت زبان میں ”اشت“ آٹھ اور ’نگر‘ شہر (خطے) کو کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس مقام سے آٹھ شہروں کو راستے جاتے تھے۔ یہی اشت نگر تبدیل ہو کر ہشت نگر یا بعدازاں ہشت نگری بن گیا۔ اس دروازے سے متصل داخلی علاقوں میں جھنڈا بازار‘ کریم پورہ اور شادی پیر شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ہشت نگری دروازے کے باہر ”پنج تیرتھ“ کا مقام ایک نئے نام اور ایک نئی شکل میں موجود ہے۔ مذہبی سیاحت کے فروغ میں یہ ایک انتہائی اہم مقام ہے ہندوؤں کی مقدس کتاب ”مہابھارت“ میں بھی ”پنج تیرتھ“ کا تذکرہ محفوظ ہے۔ ہشت نگری دروازہ کے بعد عین مشرق کی جانب لاہوری دروازہ ہے جہاں سے لاہور (پنجاب کے دارالحکومت) کو مسافت کا آغاز یا اختتام ہوا کرتا تھا۔ اِس کے بعد گنج دروازہ ہے۔ گنج فارسی زبان میں خزانے کو کہا جاتا ہے اور یہاں صاحبان ِثروت رہا کرتے تھے۔ بدھ راجہ کنشکاکا دربار بھی اسی مقام پر ہوا کرتا تھا چونکہ خزانے اس راستے سے شہر میں آتے لہٰذا اس دروازے کا نام ہر دور میں گنج دروازہ ہی رہا۔ اس دروازے کے باہر ایک زمانے میں گوتم بدھ کا وہ بلند اسٹوپا (عبادتگاہ) ہوا کرتا تھا‘ جس میں اس کی راکھ دفن تھی اور جسے ”شاہ جی دیاں ٹیریاں“ پکارا جاتا تھا اور یہ سٹوپا دنیا کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز رکھتی تھی لیکن وقت کے ساتھ اِسے ختم کرکے اراضی قبضہ کر لی گئی! گنج گیٹ کے بعد یکہ توت دروازہ ہے جس کا نام یکہ یعنی یکتا اور توت کا مجموعہ ہے۔ توت کے معنی ہیں بے نیاز‘ پاک باز اور نامور لوگ۔ یہاں روحانی پیشواؤں کے آستانے‘ خانقاہیں اور معروف بزرگ ہستیوں کے آبائی گھر آج بھی ہیں اور اِسی وجہ سے اِس دروازے کو ”یکہ توت“ کہا گیا۔ یکہ توت کے بعد کوہاٹی دروازہ ہے جہاں کبھی بارک زئی عہد کا دربار ہوا کرتا تھا جسے برطانوی دور میں سکول بنا دیا گیا اور اِسی دروازے کے اندر ”پری چہرہ“ کا مقبرہ بھی ہے‘ جو ایران کے شہنشاہ نادر شاہ کی بیوی تھی۔ کوہاٹی کے بعد سرکی دروازہ کی وجہ تسمیہ لفظ ’سرک‘ ہے جس کا مطلب ”مشرق“ ہے۔ اِس دروازے کی بناوٹ کچھ اس طریقے سے ہوئی کہ سورج کی پہلی کرن اس دروازے پر پڑتی تھی۔سرکی کے بعد رام داس دروازہ ایک شخصیت کے نام سے منسوب ہے جوکہ سکھوں کے دور میں اس علاقے کا نمبردار تھا۔ سرد چاہ(ٹھنڈی کھوئی) دروازہ کے مقام پر کنواں ہوا کرتا تھا جو غالباً بدھ عہد کی یادگار تھی۔ کنویں کی دیواروں پر مورتیاں بنی ہوئی تھیں اور پورے شہر میں کا ٹھنڈا میٹھا پانی مشہور تھا۔ قیام پاکستان بعد اِس کنویں کو بند کر دیا گیا اور اراضی پر قبضہ کر لیا گیا۔ بارزقاں دروازہ نشیبی ہونے کی وجہ سے نالوں اور دریا کی گزر گاہ تھی جس پر ”جندر“ (آٹا پیسنے کی مشین نصب تھی) مغل عہد تک سرکاری ”جندر“ تھا اس دروازے کے اندر کے علاقے کو ”آسیا“ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے چکی چونکہ یہاں پر سرکاری لنگر خانوں اور عوام کو بھی آٹا ملتا تھا اور آٹے کو ہند کو زبان میں رزق سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی وجہ سے اس دروازے کو رزق کی مناسبت سے ”بارزقاں دروازہ“ کہا گیا۔کوہاٹی کے بعد ڈبگری گیٹ کی وجہ تسمیہ ہند کو زبان کا لفظ ”ڈب“ ہے جو چمڑے کے بنے ہوئے گھڑے (کپے) کو کہتے ہیں جس کی شکل و صورت تو ایک بڑے مٹکے کی سی ہوتی ہے مگر جس کا دھانہ نہایت چھوٹا ہوتا ہے ان کپوں میں تیل یا گھی ڈال کر لے جایا جاتا تھا اس کے بنانے والے پیشے کے لحاظ سے ”ڈب گر“ کہلائے تھے اُور اِسی نسبت سے یہ علاقہ ڈبگری جبکہ دروازہ بھی ڈبگری ہی کہلایا۔ باجوڑی دروازہ قبائلی علاقے باجوڑ کو جانے والے راستے کا آغاز و اختتام کا مقام ہے۔پشاور کی فصیل کے ساتھ سفر کرتے ہوئے سولہ دروازوں کی سیر میں اُس ثقافتی اور سماجی رنگ و یگانگت کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہے۔ پشاور ایک گلدستے کی طرح مختلف اقوام اور پیشہ وروں کا شہر ہے‘ جس کی روشنی‘ چاشنی اور یہاں کا دوستانہ ماحول اگر تاریخی اثاثوں (قدیمی تعمیرات) کے سائے میں پروان چڑھے تو اِس نسبت و مناسبت سے سیاحتی ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔